بنگلہ دیش کے دارالحکومت ڈھاکہ میں 3 ہزار دکانوں پر مشتمل ایک شاپنگ کمپلیکس میں زبردست آگ لگ گئی جس پر فائر فائٹرز اور فوج کے اہلکار قابو پانے کے لیے سخت کوششیں کررہے ہیں۔
غیر ملکی خبررساں اداروں کی رپورٹ کے مطابق منگل کی علی الصبح شروع ہونے والی اس آگ میں ابھی تک کسی جانی نقصان کی اطلاع نہیں ملی۔
ملک کی مشہور کپڑا مارکیٹوں کے گڑھ بنگا بازار کے تنگ اور پرہجوم علاقے میں آگ کے شعلے تیزی سے پھیلنے کے بعد فوج کے جوانوں کو مدد کے لیے بلایا گیا تھا۔
فائر ڈپارٹمنٹ کے ترجمان رقیب الاسلام نے اے ایف پی کو بتایا کہ ’تقریباً 600 فائر فائٹرز آگ پر قابو پانے کے لیے کام کر رہے ہیں‘۔
فوجی ترجمان نے ایک بیان میں کہا کہ فضائیہ کا ایک ہیلی کاپٹر بھی آگ بجھانے کی کوشش میں شامل ہو گیا ہے۔
ہیلی کاپٹر سے ملنے والی فضائی فوٹیج میں سیکڑوں افراد کو قریبی بائی پاس پر کھڑے ہو کر آگ پر قابو پانے کی کارروائی کا مشاہدہ کرتے ہوئے دیکھا گیا۔
ایک عہدیدار نے کہا کہ آگ سے زیادہ تر دکانیں جل کر راکھ ہو گئی ہیں لیکن اس بارے میں کوئی اطلاع نہیں ہے کہ کیا کچھ لوگ اندر پھنسے ہوئے ہیں کیونکہ آگ صبح علی الصبح لگی تھی اور زیادہ تر دکانیں اس کے بعد کھلتی تھیں۔
فائر ڈپارٹمنٹ کے ایک عہدیدار نے مزید بتایا کہ دھوئیں نے علاقے کو اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے اور کمپلیکس سے آگ کے شعلے اٹھتے دیکھے گئے، جس سے بچاؤ کی کوششوں میں رکاوٹ پیدا ہو رہی تھی
ایک متاثرہ دکان کے مالک عبدالمنان نے اپنے رشتہ داروں سے فون پر بات کرتے ہوئے کہا کہ میں نے اپنی زندگی میں ایسی آگ نہیں دیکھی، میری دکان میں موجود ہر چیز جل کر خاکستر ہو گئی ہے، یہ کہتے ہوئے وہ پھوٹ پھوٹ کر رو پڑے۔
ڈیلی اسٹار اخبار کی رپورٹ کے مطابق بنگا بازار کے دکانداروں نے، جس میں زیادہ تر کپڑے کی دکانیں ہیں، عید کے تہوار کی تیاریوں کے لیے ذخیرہ کر رکھا تھا، اور ان کا زیادہ تر سامان آگ میں جل کر تباہ ہو گیا۔
ایک کاروباری مالک نے بتایا کہ میں نے عید کے سیزن کی مناسبت سے کپڑے خریدنے کے لیے 15 لاکھ ٹکا (14 ہزار 100 ڈالر) ادھار لیے تھے لیکن میں نے سب کچھ کھو دیا ہے۔
ملک میں صنعتی آتشزدگی کے لیے کمزور قواعد و ضوابط اور ناقص نفاذ کو مورد الزام ٹھہرایا گیا ہے جس کی وجہ سے حالیہ برسوں میں سیکڑوں اموات ہوئیں۔
یہ مارکیٹ کٹ پرائس پر مغربی فیشن برانڈز جیسا کہ ٹومی ہِلفیگر کے لیے ایک مقبول منزل تھی، جہاں شہر کی گارمنٹ فیکٹریوں میں تیار کیے گئے وہ کپڑے فروخت کیے جاتے تھے جو برآمدی معیارات کو پورا کرنے میں ناکام ہوں۔