بلوچستان کا سالانہ بجٹ ایک روز مزید مؤخر ہونے کے بعد آج ہوگا، تاخیر کی وجہ کچھ تفصیلات کو حتمی شکل نہ دینا بتائی گئی۔
رپورٹ کے مطابق یہ رپورٹس بھی تھیں کہ حکمراں جماعت کے کچھ اراکین صوبائی اسمبلی نے ایک سینیئر وزیر کی ترقیاتی اسکیم کے لیے بھاری فنڈز مختص کرنے پر اعتراض کیا۔
بجٹ سیشن اس وقت مؤخر ہوا جب وزیراعلیٰ عبدالقدوس بزنجو کی جانب سے آخری لمحات میں قائم مقام گورنر کو اجلاس ایک روز مؤخر کرنے کی سمری ارسال کی گئی تھی۔
طے شدہ بجٹ اجلاس کو مؤخر کرنے جیسی مثال بلوچستان کی پارلیمانی تاریخ میں کبھی نہیں ملتی۔
قبل ازیں خزانہ ڈویژن نے بجٹ اجلاس پیش کرنے کے لیے 17 جون کی تاریخ مقرر کی تھی لیکن 2 روز قبل نئی تاریخ کا اعلان کیا گیا تھا۔
پیر کے روز اسمبلی کے عملے بجٹ اجلاس کے لیے درکار تمام انتظامات مکمل کرلیے تھے لیکن تقریباً صبح 11 بجے ہاؤس سیکریٹری کو بتایا گیا کہ اجلاس ایک روز مؤخر کردیا گیا ہے اور اب 21 جون کو (آج) ہوگا۔
قائم مقام گورنر میر جان محمد خان جمالی نے وزیراعلیٰ کی سمری موصول ہونے کے بعد بجٹ اجلاس کا نیا نوٹیفکیشن جاری کیا جسے اسمبلی کے سیکریٹری کو بھجوادیا گیا۔
آخری لمحات میں اجلاس کیوں مؤخر کیا گیا اس حوالے سے متضاد دعوے سامنے آئے۔
ایک رپورٹ کے مطابق پبلک سیکٹر ڈیولمپنٹ پروگرام (پی ایس ڈی پی) میں فنڈ مختص کرنے کے حوالے سے کوئی الجھن تھی۔
بلوچستان اسمبلی کے اسپیکر میر جان محمد خان جمالی نے میڈیا سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ وزیراعلیٰ اور حکمراں جماعت کے دیگر تمام اراکین کل رات دیر گئے تک مصروف تھے اس لیے پی ایس صی پی کو حمتی شکل دینے کے لیے اس کا جائزہ نہیں لیا جاسکا۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ ترقیاتی بجٹ میں کم رقم مختص کرنے کی تجویز تھی لیکن کچھ اراکین اسمبلی اس میں 3 گنا اضافہ چاہتے تھے جس کی وجہ سے حکومت کو بجٹ برائے مالی سال 23-2022 کے پی ایس ڈی پی کو حتمی شکل دینے میں مشکلات کا سامنا ہے۔
تاہم کچھ ذرائع کا کہنا تھا کہ کچھ اراکین کی جانب سے سینیئر وزیر نور محمد دمر کی ترقیاتی اسکیمز کے لیے بھاری رقوم مختص کرنے پر تحفظات تھے جس کی وجہ سے بجٹ اجلاس مؤخر کیا گیا۔
وزیراعلیٰ بلوچستان عبدالقدوس بزنجو کے خلاف حال ہی میں پیش کی گئی تحریک عدم اعتماد کی ناکامی کے بعد نور محمد دمر کو خزانہ کا پورٹ فولیو تفویض کیا گیا تھا۔
تاہم کچھ روز قبل ان سے یہ پورٹ فولیو واپس لے کر اضافی چارج سردار عبدالرحمٰن کھیتران کو دیا گیا تھا جو وزیر مواصلات تھے۔
ان کا کہنا تھا کہ بی اے پی کے اراکین اسمبلی اور اپوزیشن ارکان نے آئندہ سال کی پی ایس ڈی پی میں اپنی ترقیاتی اسکیمز کے لیے مزید فنڈز کا مطالبہ کیا ہے۔
اپوزیشن اراکین صوبائی اسمبلی جنہوں نے سابق وزیراعلیٰ جام کمال خان علیانی کو تحریک عدم اعتماد کے ذریعے ہٹانے میں اہم کردار ادا کیا تھا، انہوں نے بھی اپنی اسکیمز کے لیے مختص فنڈز پر تحفظات ظاہر کیے تھے۔