سینیئر عرب پارلیمنٹیرینز کے ایک وفد نے اتوار کو دمشق میں شام کے صدر بشار الاسد سے ملاقات کی۔
اس ملاقات کو شام میں تنازعے پر ایک دہائی سے زیادہ سردمہری کے بعد تعلقات میں مثبت پیش رفت کی علامت سمجھا جا رہا ہے۔
عراقی، اردنی، فلسطینی، لیبیا، مصری اور متحدہ عرب امارات کے ایوانِ نمائندگان کے ساتھ ساتھ عمان اور لبنان کے نمائندوں نے عرب بین الپارلیمانی یونین کے وفد کے طور پر شام کا سفر کیا۔
حکومت کی حامی خبر رساں ایجنسی کے مطابق انہوں نے شامی ارکان پارلیمنٹ اور بشار الاسد سے ملاقات کی۔
عراقی پارلیمنٹ کے سپیکر محمد حلبوسی نے بتایا کہ ’ہم شام کے بغیر آگے نہیں بڑھ سکتے اور شام اپنے عرب ماحول کے بغیر نہیں رہ سکتا جس کے بارے میں ہمیں امید ہے کہ وہ اس (عرب ماحول) میں واپس آ جائے گا۔‘
2011 میں حکومت کے خلاف شروع ہونے والے مظاہروں کے خلاف بشار الاسد کے مہلک کریک ڈاؤن کے بعد شام بڑی حد تک باقی عرب دنیا سے الگ ہو گیا تھا۔
عرب لیگ نے 2011 میں شام کی رکنیت معطل کر دی تھی اور کئی عرب ممالک نے اپنے سفیروں کو دمشق سے بلوا لیا تھا۔
بشار الاسد کو چھ فروری کو آنے والے تباہ کن زلزلے کے بعد عرب ریاستوں کی حمایت سے فائدہ ہوا۔ اس زلزلے میں اقوام متحدہ اور شامی حکومت کے اعداد و شمار کے مطابق ملک بھر میں پانچ ہزار 900 سے زائد افراد ہلاک ہوئے تھے۔
ڈونرز میں سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات شامل ہیں۔
متحدہ عرب امارات نے روس اور ایران سمیت کسی بھی دوسرے ملک سے زیادہ امداد سے لدے طیارے بھیجے۔
مصر کے صدر عبدالفتاح السیسی نے پہلی بار سات فروری کو بشار الاسد سے فون پر بات کی اور اردن کے وزیر خارجہ نے 15 فروری کو دمشق کا پہلا دورہ کیا۔
اس کے بعد بشار الاسد نے 20 فروری کو عمان کا سفر کیا۔ ان کا 2022 کا یو اے ای کا دورہ 2011 کی جنگ شروع ہونے کے بعد کسی عرب ریاست کا پہلا دورہ تھا۔
مصر کی پارلیمنٹ کے سپیکر حنفی الجبالی نے دمشق میں کہا کہ زلزلے کے بعد عرب وفد ’شامی عوام کی مدد کے لیے برادر ملک شام کا دورہ کر رہا ہے۔‘