وفاقی وزیر خزانہ مفتاح اسمٰعیل نے پاکستان میں کام کرنے والی غیر ملکی ملٹی نیشنل کمپنیوں (ایم این سیز) سے کہا ہے کہ برآمدات کا کوئی منصوبہ پیش کریں اور انہیں ٹیکس میں چھوٹ دینے کا وعدہ کیا۔
وزیر خزانہ نے ٹویٹر بیان میں پاکستان میں ٹیکس کی مد میں بھاری رقم ادا کرنے، روزگار کے مواقع فراہم کرنے اور ملک میں ٹیکنالوجی لانے پر ملٹی نیشنل کمپنیوں کا شکریہ ادا کیا۔
انہوں نے کہا کہ میں ان سب سے درخواست کرتا ہوں کہ وہ مجھے پاکستان سے باہر برآمد کرنے کا منصوبہ پیش کریں، میں اس کے لیے انہیں ٹیکس میں چھوٹ فراہم کروں گا۔
وزیر خزانہ کا ٹوئٹر پر یہ بیان اس وقت آیا جب حکومت نے غیر ضروری لگژری اشیا کی درآمد پر پابندی عائد کردی ہے تاکہ درآمدی بل کو کم کیا جاسکے۔
پاکستان اس وقت کرنٹ اکاؤنٹ خسارے سے نمٹ رہا ہے اور حال ہی میں ایندھن کی سبسڈی کی وجہ سے زرمبادلہ کے ذخائر بھی کم ہو رہے ہیں۔
اس سلسلے میں وزیر خزانہ نے بتایا کہ اپریل میں کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ 62 کروڑ 30 لاکھ ڈالر رہا جو مالی سال کے پہلے نو ماہ میں نصف سے بھی کم ہے، انہوں نے اس پیشرفت کو بیرونی استحکام کے لیے بہت اچھی علامت قرار دیا۔
انہوں نے کہا کہ بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) سے مثبت بات چیت جاری ہے، ہم بہت جلد معاشی صورتحال میں تبدیلی کی توقع رکھتے ہیں۔غیر ملکی کمپنیوں کو ٹیکس میں چھوٹ دینے کے بارے میں وزیر خزانہ کا ٹوئٹ انڈس موٹر کمپنی کے چیف ایگزیکٹو اور وائس چیئرمین کے ساتھ ملاقات کے بعد سامنے آیا جس کی سرکاری خبر رساں ایجنسی ’اے پی پی‘ نے گزشتہ روز اطلاع بھی دی تھی۔
مفتاح اسمٰعیل نے کہا کہ حکومت اقتصادی سرگرمیوں کے فروغ اور برآمدات میں اضافے کے لیے سرمایہ کاروں اور کاروباری اداروں کو سازگار اور دوستانہ ماحول فراہم کرنے کے لیے پرعزم ہے۔
وزارت خزانہ کی طرف سے جاری ایک بیان میں کہا گیا کہ وزیر خزانہ مفتاح اسمٰعیل نے انہیں یقین دلایا کہ آئندہ بجٹ کاروبار دوست ہوگا اور معیشت میں برآمدات اور کاروبار کے فروغ میں معاون ہوگا۔
انہوں نے مزید کہا کہ حکومت کاروباری برادری کے مسائل اور ملک میں کاروباری سرگرمیوں کی توسیع میں درپیش رکاوٹوں سے اچھی طرح سے واقف ہے۔
حکومت کی طرف سے برآمدات بڑھانے پر زور دیا جارہا ہے اور گزشتہ روز ایک ’ہنگامی اقتصادی منصوبے‘ کے تحت غیر ضروری لگژری اشیا کی درآمد پر پابندی عائد کرنے کا فیصلہ بھی کیا گیا تھا۔
حکومت کی طرف سے پابندی کی زد میں آنے والی اشیا میں گاڑیاں، موبائل فون، گھریلو سامان، گوشت، پھل، کراکری، چٹنی، کتے اور بلی کا کھانا، فرنیچر اور کنفیکشنریز شامل ہیں۔
یاد رہے کہ گزشتہ روز وزیر اطلاعات مریم اورنگزیب نے اعلان کیا تھا کہ یہ فیصلہ ’ملک کا قیمتی زرمبادلہ بچانے‘ کے لیے کیا گیا ہے۔
وزیر اطلاعات نے کہا تھا کہ یہ وہ اشیا ہیں جو عام لوگوں کے استعمال میں نہیں ہیں، انہوں نے اس بات پر زور دیتے ہوئے کہا تھا کہ یہ ملک میں ایک ہنگامی صورت حال ہے اور پاکستانیوں کو اقتصادی منصوبے کے تحت قربانیاں دینی ہوں گی۔
مریم اورنگزیب نے نشاندہی کی تھی کہ ان پابندیوں کا اثر تقریباً 6 ارب ڈالر ہوگا۔
انہوں نے کہا کہ درآمداتی آرڈرز جہاں لیٹر آف کریڈٹ پہلے ہی کھولے جاچکے ہیں یا ان کی ادائیگی ہو چکی ہے ان پر کارروائی کی جائے گی، لیکن نئے آرڈرز پر غور نہیں کیا جائے گا۔
وزیر اطلاعات نے مزید کہا تھا کہ ہمیں درآمدات پر انحصار کم کرنا ہوگا، انہوں نے زور دیتے ہوئے کہا کہ حکومت اب برآمدات پر توجہ دے رہی ہے، حکومت کے اقتصادی منصوبے کے تحت مقامی صنعتیں خوشحال ہوں گی جبکہ روزگار کے مواقع بھی پیدا ہوں گے۔
معاشی بحران
آج امریکی ڈالر نے روپے کے مقابلے میں اپنی بلند ترین اڑان جاری رکھی اور آج صبح انٹربینک ٹریڈنگ میں ڈالر 200.50 روپے پر ٹریڈ ہوا۔
گزشتہ منگل سے روپے کی قدر میں مسلسل گراوٹ کی بڑی وجہ ملک کے بڑھتے ہوئے درآمدی بل، کرنٹ اکاؤنٹ خسارے میں اضافہ اور اسٹیٹ بینک آف پاکستان کے زرمبادلہ کے ذخائر میں کمی ہے۔
اپریل میں درآمدات میں 72 فیصد اضافہ ہوا جس سے حکومت کے پاس بیرونی توازن کو بہتر کرنے کی کوئی گنجائش نہیں رہی اور 13 مئی کو ختم ہونے والے ہفتے کے دوران اسٹیٹ بینک کے زرمبادلہ کے ذخائر مزید 14 کروڑ 50 لاکھ ڈالر کم ہوکر 10.16 ارب ڈالر رہ گئے۔