ایک چالاک آڈٹ کی کہانی – روف کلاسرا

ویسے تو آج ارادہ تھا ابراہم لنکن کے حوالے سے کچھ لکھنے کا تھا۔ ایک امریکن یونیورسٹی کے تاریخ کے پروفیسر کا لکھا ہوا نیا مضمون پڑھا ہے جس میں انہوں نے کورونا وائرس کے حوالے سے لکھا ہے کہ قیادت کیا ہوتی ہے اور اس میں کیا کیا خوبیاں ہوتی ہیں جو بحرانوں کا سامنا اور مقابلہ کرسکیں۔ اس سلسلے میں پروفیسر صاحب نے لنکن کو سامنے رکھ کر آج کی امریکن قیادت کو کچھ سمجھانے کی کوشش کی ہے۔
امریکہ یا لندن جائوں تو دوست مجھے بتاتے رہیں گے کہ امریکہ میں یہ ہوتا ہے ‘ لندن میں یہ ہوتا ہے ‘تو میں چپ چاپ سنتا رہتا ہوں۔ ان کے کہنے کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ پاکستان میں بھی ایسے ہونا چاہیے۔ اب دوستوں کو کیا بتائوں کہ سینکڑوں پاکستانی ادیبوں‘ کالم نگاروں اورسفر نامہ لکھنے والوں نے لکھ لکھ کر مت مار دی ہے کہ فرانس‘ سپین‘ برلن‘ لندن‘ ناروے‘ جنیوا اور پتہ نہیں کس کس ملک اور شہر میں کیا کیا ہوتا ہے۔اس سے ہم پاکستانیوں پر کوئی فرق پڑا؟ پاکستانیوں کو چھوڑیں جو خود یہ سب کچھ بیرون ملک دیکھتے رہے اور پوری قوم کو بھی سمجھاتے رہے کہ قومیں ایسے بنتی ہیں‘ وہ خود واپس آ کر کچھ تبدیل ہوئے؟ جو قوم کو دوسری قوموں کے بارے ایجوکیٹ کرتے ہیں وہ خود پر اس کا دس فیصد بھی لاگو کر لیتے تو شاید معاشرے کو زیادہ فائدہ ہوتا۔ ایک فلسفیانہ سوال ہے کہ معاشرہ بدلنے کا کیا طریقہ ہے؟ایک یہ کہ پورا معاشرہ بدلے گا تو میں بدلوں گا‘اور دوسرا یہ کہ معاشرہ بدلے نہ بدلے میں خود کو بدلوں گا۔ اب اس میں سے کون سا کام مشکل ہے؟ یقینا معاشرے کو بدلنا مشکل ہے‘ لہٰذا آپ ایک کام کرسکتے ہیں‘ جو آسان بھی ہے کہ خود کو بدل لیں‘ لیکن نہ ہم معاشرہ بدل سکتے ہیں اور نہ ہی خود کو۔ یوں سب تحریریں ضائع گئیں کہ فلاں ملک میں یہ ہوتا ہے‘ وہ ہوتا ہے۔

یہ بھی انسانی مزاج ہے کہ انسان دوسروں کے تجربات سے نہیں سیکھتا‘ جب تک کہ وہ خود اس عذاب سے نہ گزرے۔ اس لیے جب ہم اعلیٰ قیادت کی خوبیاں پڑھ کر اپنے لیڈروں میں تلاش کرنے کی کوشش کریں گے تو ناکام ہوں گے۔ اس لیے ابراہم لنکن پر لکھے گئے اس خوبصورت مضمون کو پڑھ کر ایک طرف رکھ دیا کہ اسے پھر کسی وقت دیکھیں گے کہ اگر لکھ بھی دیا تو کون سا پاکستانیوں نے اس کی باتوں یا خوبیوں پر توجہ دینی ہے۔ وہ رائٹر امریکیوں کو سمجھا رہا تھا کہ ابراہم لنکن اور آج کی قیادت میں کتنا فرق ہے اور کیوں ہے اور کون کون سی باتیں لنکن کو بڑا لیڈر بناتی ہیں‘دوسری طرف جب ہمارے ہاں کورونا کا مسئلہ سنگین ہوتا جارہا ہے اسی وقت جہانگیر ترین اور وزیراعظم عمران خان کے درمیان نئی جنگ شروع ہوگئی ہے جس کے بعد میڈیا کا رخ بھی بدل گیا ہے۔ اب حکومت کہہ رہی ہے کہ پاکستان کے طاقتور شوگر ملز مالکان نے اربوں روپے بنا لیے ۔ لوگوں کو اب احساس ہورہا ہے کہ اس قوم کی جیب سے ایک طرف سبسڈی کے نام پر چوبیس ارب روپے نکال کر مل مالکان کو دے دیے گیے‘ دوسری طرف ایکسپورٹ کی وجہ سے لوکل مارکیٹ میں قلت ہوئی اور قیمت سولہ روپے فی کلو بڑھا کر اربوں وہاں سے بھی کما لیے۔ اب حکومت نے کہا ہے کہ جن ملوں کو عوام کی جیب سے اربوں روپے ملے ہیں ان کا آڈٹ ہوگا۔ اس وقت ملک میں اسی شوگر ملیں ہیں جن میں سے نصف بڑے سیاسی خاندانوں کی ملکیت ہیں۔وہی حکومت میں ہوتے ہیں اور وہی اپنی ملوں کو عوام کی جیب سے سبسڈی دلاتے ہیں۔ اب ان اسی ملوں میں سے صرف دس ملوں کا آڈٹ ہورہا ہے اور ان دس میں سے چھ جہانگیر ترین اور ان کے رشتہ دار کی ہیں۔ مزے کی بات ہے کہ شوگر انکوائری رپورٹ میں جن بڑے بڑے سیاستدانوں کے نام آئے تھے کہ انہوں نے بڑا ہاتھ مارا ‘ان میں وفاقی وزیر خسرو بختیار کے بھائی کی ملیں بھی شامل ہیں ‘جن کے چھوٹے بھائی مخدوم ہاشم بخت نے وزیرخزانہ پنجاب کی حیثیت سے تین ارب کی سبسڈی ملوں کو دی‘ جس میں سے پچاس کروڑ روپے اپنے بھائی مخدوم شہریار کو دیے۔اس مل میں چوہدری پرویز الٰہی کے بیٹے مونس الٰہی کا بھی شیئر ہے۔ جب یہ فرانزک آڈٹ ہورہا ہے تو یہ توقع کی جارہی تھی کہ ان ملوں کا بھی ہوگا جو مخدوم بھائیوں اور چوہدریوں کی ہیں‘لیکن اب اچانک یہ خبر آئی ہے کہ مخدوم بھائیوں اور چوہدریوں کی ملوں کا آڈٹ نہیں ہورہا۔ آڈٹ صرف جہانگیر ترین اور ان کی عزیزوں کی ملوں کا ہورہا ہے۔ وہ بھی یقینا ہونا چاہیے‘ لیکن آڈٹ صرف دو شوگر گروپس کا کیوں؟ ان کا کیوں نہیں جنہوں نے چوبیس ارب روپے لیے؟ لیکن حیران کن طور پر ان چوبیس ارب روپے لینے والوں کے نام اس آڈٹ کا حصہ نہیں۔ سب سے بڑی بات یہ کہ جس گروپ نے کروڑوں کی سبسڈی لی وہ نام بھی آڈٹ فہرست میں شامل نہیں۔ سب چھاپے ان دس ملوں پر مارے گئے ہیں جو جہانگیر ترین اور ان کے رشتہ داروں کی ہیں۔ دریشک فیملی نے بھی شوگر ایکسپورٹ کی‘ ان کا نام بھی غائب ہے۔
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ مخدوم‘ دریشک اور چوہدری کیسے اس انکوائری کے بعد آڈٹ سے بچ گئے اور مخدوموں کی ملوں کو اس آڈٹ سے نکالنے سے کیا میسج دیا جارہا ہے؟ اب تک یہ سمجھا جارہا تھا کہ یہ کارروائی شوگر مافیا کی کمر توڑنے کے لیے تھی‘ اب پتہ چلا ہے کہ مخدوموں‘ دریشک اور چوہدریوں کو تو پہلے ہی مرحلے میں چھوڑ دیا گیا ۔ شاید اس کی وجہ سیاسی ہے۔ عمران خان صاحب لاکھ کہتے رہیں کہ وہ کسی کو نہیں چھوڑیں گے ‘مگر انہیں پنجاب میں مخدوموں اور چوہدیوں کو چھوڑنا پڑ گیا اور خان صاحب نے سمجھداری سے فوکس ترین کی ملوں پر رکھا ہے کیونکہ ترین کا حکومت پر کوئی سیاسی اثر و رسوخ نہیں۔ جہانگیر ترین کا کوئی سیاسی ووٹ پارلیمنٹ یا کا بینہ میں نہیں اور ترین کے جانے سے وفاقی یا صوبائی حکومت کو کوئی خطرہ نہیں ‘ دوسری جانب خسرو بختیار اورصوبائی وزیر ہاشم بخت کے بھائی شہریار اور چوہدری پرویز الٰہی کے بیٹے مونس الٰہی کی شوگر ملوں کا اس طرح فرانزک آڈٹ کرایا جاتا ہے جیسے ترین اور دیگر دس ملوں کا ہورہا ہے تو یقینا حکومت کیلئے بہت مسائل ہوسکتے تھے۔ خسرو بختیار وفاقی وزیر ہیں اور ان کا اپنا صوبہ محاذ گروپ تھا‘ اسی طرح بزدار صاحب کی حکومت چوہدری پرویز الٰہی کے کندھے پر کھڑی ہے۔ اب اگر مخدوموں اور چوہدریوں کی ملوں کے خلاف کارروائی ہوتی ہے تو یہ عمران خان کی حکومت نہ سہی بزدار صاحب کی حکومت تو گرا ہی سکتے ہیں اور عمران خان صاحب کی حکومت کی رِٹ صرف اسلام آباد تک محدود کر سکتے ہیں‘لہٰذا مخدوموں اور چوہدریوں کی ملوں کو نہیں چھیڑا گیا‘ یہاں سیاسی مصلحت سے کام لیا گیا۔تاہم جب ایک گروپ‘ جس نے سبسڈی لی ‘اس کا آڈٹ ہورہا ہے اور ملوں پر چھاپے مارے جارہے ہیں تو اس وقت دوسرے سیاسی گروپ کی ملوں کو چھوڑ دینا اس پورے عمل کو مشکوک کر دے گا۔ اس طرح انکوائری رپورٹ متنازعہ ہوجائے گی اور مل مالکان ایک دفعہ پھر بچ نکلیں گے۔ ترین کو اگر پکڑ بھی لیا گیا تو انہوں نے سیاسی انتقام کا نعرہ مار کر نکل جانا ہے کہ دیکھیں یہ سارا میلہ انہیں کو فکس کرنے کے لیے رچایا گیا تھا ‘ورنہ وہ بھی تو تھے جنہوں نے چوبیس ارب کی سبسڈی لی جن میں زرداری اور شریف بھی شامل تھے۔

اب سوال یہ بھی پیدا ہوگیا ہے کہ ان چوبیس ارب والوں کا آڈٹ کیوں نہیں کیا گیا ؟صرف ایک ارب روپے لینے والوں کا کیوں؟سنا ہے کہ اس پر خاصا وقت لگ جاتا اور وزیراعظم صاحب ترین کو فکس کرنے کے لیے جلدی میں ہیں۔اب آپ دیکھ سکتے ہیں کہ ہمارے ہاںجو اچھا کام شروع کیا جائے تو اس کا مقصد بھی ملک کے لیٹروں کو کٹہر ے میں لا کر انصاف کرنا نہیں ہوتا بلکہ صرف ان لوگوں کو سزا دینی ہوتی ہے جو گستاخی کر بیٹھیں۔مگرمخدوموں ‘ چوہدریوں اور چوبیس ارب روپے سبسڈی لینے والوں کو آڈٹ سے نکالنے کا فائدہ ترین گروپ کو ہی ہوگا۔اندازہ کریں پاکستانی آڈٹ بھی کتنا سیاسی طور پر سمجھدار ہے کہ مخدوموں‘ چوہدریوں اور دریشک کی ملوں کی طرف دیکھتا بھی نہیں کہ کہیں حکومت خطرے میں نہ پڑجائے ۔

وہی لطیفہ یاد آگیا کہ جس ملک کے حکمران‘ بابوز‘ آڈٹ اور آڈیٹرز اتنے سمجھدار ہوں‘ سمجھ نہیں آتا اس ملک پر ایک سو ارب ڈالرز کا قرضہ کیسے چڑھ گیا۔

اپنا تبصرہ بھیجیں