سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے پیٹرولیم کو بتایا گیا ہے کہ عالمی منڈی میں پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں کمی کے باوجود پاکستان میں ایندھن کی قیمتوں میں اضافے کی اہم وجوہات اس کی پیشگی خریداری کرنا اور اس پر پیٹرولیم ڈیولپمنٹ لیوی (پی ڈی ایل) نافذ کرنا ہے۔
رپورٹ کے مطابق قائمہ کمیٹی نے متعلقہ حکام کو ہدایت کی کہ وہ پرائیویٹ سیکٹر کو مائع قدرتی گیس (ایل این جی) کی درآمد کے لیے سہولت مہیا کرے تاکہ قومی خزانے پر دباؤ کم ہو اور پیٹرولیم سیکٹر میں مسابقت کی فضا پیدا ہو۔
سینیٹر عبدالقادر کی سربراہی میں قائم کمیٹی کے ارکان نے اجلاس میں وزیر مملکت برائے پیٹرولیم مصدق ملک اور سیکریٹری پیٹرولیم کی عدم شرکت پر بھی تشویش کا اظہار کیا۔
کمیٹی چیئرمین نے کہا کہ سیاسی وابستگی سے قطع نظر، ہم سب تیل کی قیمتوں میں کمی کرنے اور پاکستان کے عام شہریوں کو آسانی فراہم کرنے کے لیے سخت اقدامات کی ضرورت محسوس کرتے ہیں۔
عالمی سطح پر تیل کی قیمتوں میں کمی کے باوجود ملک میں پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافے سے متعلق کمیٹی کے ارکان کے سوالات کے جواب میں پیٹرولیم ڈویژن کے حکام نے بتایا کہ قیمتوں میں اضافے کی وجہ عالمی سطح پر پیٹرولیم مصنوعات کی قیمت میں کمی سے قبل کی گئی پیشگی خریداری ہے۔
حکام نے بتایا کہ ایندھن کی قیمتوں میں اضافے کی ایک اور وجہ آئی ایم ایف کی شرائط کی تکمیل کے سلسلے میں ہر ماہ پیٹرولیم ڈیولپمنٹ لیوی (پی ڈی ایل) کا نفاذ ہے۔
دوسری جانب، سینیٹر تاج حیدر نے عوامی تشویش سے متعلق آواز اٹھاتے ہوئے ایندھن کے کاروبار میں مقابلے کی فضا کی حوصلہ افزائی کرنے کی ضرورت پر زور دیا اور کہا کہ حکومت کی جانب سے نجی شعبے پر ایل این جی کی درآمد پر عائد کردہ پابندیوں کو ہٹایا جانا چاہیے۔
قائمی کمیٹی کو بریفنگ دیتے ہوئے آل پاکستان سی این جی ایسوسی ایشن کے صدر غیاث پراچہ نے کہا کہ تیل اور گیس سیکٹر کو نجی سرمایہ کاروں کے لیے بھی کھولنا چاہیے۔
غیاث پراچہ نے کمیٹی کو بتایا کہ فی الحال ایل این جی کی درآمد صرف سرکاری اداروں تک محدود ہے جب کہ سرکاری اداروں کے ذریعے چلنے والے تمام کاروبار نجی شعبے کے تحت چلنے والے کاروبار کی طرح نفع بخش نہیں ہیں۔
انہوں نے وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ سرکاری اور نجی شعبے کے کاروبار میں اس فرق کی وجہ یہ ہے کہ نجی شعبے کو سرکاری محکموں کی طرح صرف ایک اجازت لینے یا کسی فائل پر صرف ایک سائن کرانے کے لیے کئی کئی روز تک انتظار کرنا نہیں پڑتا۔
انہوں نے کہا کہ اگر نجی شعبے کو ایل این جی درآمد کرنے کی اجازت دی جائے تو سالانہ 84 ارب روپے کا زرمبادلہ بچایا جا سکتا ہے اور یہ گیس پیٹرول اور ڈیزل کا متبادل ہو گی۔
غیاث پراچہ کو جواب دیتے ہوئے آئل اینڈ گیس ریگولیٹری اتھارٹی کے چیئرپرسن نے کہا کہ یہ شعبہ کھلا ہے اور او جی ڈی ایل اس سلسلے میں اوپن پالیسی کا حامی ہے جب کہ اس پالیسی سے مسابقت کی فضا پیدا ہوگی، کارکردگی میں بہتری آئے گی اور کاروبار کی لاگت میں کم ہوگی۔
انہوں نے مزید کہا کہ اوپن پالیسی کے باعث اس شعبے پر قائم کچھ کمپنیوں کی اجارہ داری ختم ہوجائے گی جب کہ یہ شعبہ فی الوقت سرکاری گیس کمپنیوں کے کنٹرول میں ہے۔
قائمہ کمیٹی کو بتایا گیا کہ اس وقت صرف ایک نجی کمپنی یو جی ڈی سی ایل این جی درآمد کرنے کی پوزیشن میں ہے۔
سوئی سدرن گیس کمپنی کے حکام کا کہنا تھا کہ وہ یو جی ڈی سی کے ساتھ معاہدے پر دستخط کرنے کے حق میں ہیں جبکہ ایس این جی پی ایل کو اس سلسلے میں اپنے بورڈ آف ڈائریکٹرز کی منظوری لینا ہوگی۔
سینیٹر عبد القادر نے اس معاملے کو جلد حل کرنے کا حکم دیا تاکہ نجی شعبہ ایل این جی درآمد کر سکے۔
اسی دوران، پاکستان ایل این جی لمیٹڈ کے حکام نے کمیٹی کو بتایا کہ کمپنی مختصر اور طویل مدت کے لیے ایل این جی سپلائی ٹینڈرز پر کام کر رہی ہے۔
اس حوالے سے فیصلہ ای سی سی اور وفاقی کابینہ کے اجلاس میں کیا جائے گا۔