ایشیائی ترقیاتی بینک (اے ڈی بی) نے کہا ہے کہ سخت مالیاتی اور مانیٹری پالیسی کی وجہ سے مالی سال 2022 میں پاکستان میں معاشی ترقی سست رہنے کا امکان ہے لیکن کھپت اور سرمایہ کاری میں تیزی سے مالی سال 2023 میں صورت حال مستحکم ہوگی۔
اے ڈی بی کی سالانہ فلیگ شپ رپورٹ ‘ایشین ڈویلپمنٹ آؤٹ لک 2022’ میں کہا گیا ہے کہ مالی سال 2022 میں جی ڈی پی کی شرح نمو 4 فیصد اور مالی سال 2023 میں 4.5 فیصد تک رہنے کا امکان ہے۔
رپورٹ میں کہا گیا کہ موجودہ مالی سال میں سست شرح نمو، کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ کم کرنے، بین الاقوامی ذخائر بڑھانے اور افراط زر میں کمی کے لیے عالمی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) کی توسیعی فنڈ سہولت (ای ایف ایف) کے تحت حکومت کے استحکام پروگرام کے دوبارہ متحرک ہونے کی عکاسی کرتا ہے۔
اے ڈی بی کی رپورٹ میں متنبہ کیا گیا ہے کہ یوکرین پر روسی حملے کے بعد ایک طویل تنازع کی وجہ سے اقتصادی صورت حال توقع سے زیادہ افراط زر کے سبب پیدا ہونے کے خطرات ہیں۔
بیان میں کہا گیا کہ اگر سپلائی میں رکاوٹ کی وجہ سے خوراک اور توانائی کی عالمی قیمتیں توقع سے زیادہ دیر تک بلند رہتی ہیں تو افراط زر کا بڑھتا ہوا دباؤ موجودہ اور اگلے مالی سال میں ترقی کے امکانات کو کمزور کر سکتا ہے۔
پاکستان کے لیے اے ڈی بی کے کنٹری ڈائریکٹر یونگ یی نے کہا کہ کورونا وبا سے نمٹنے کے لیے مربوط مالی اور مالیاتی ردعمل کی بدولت پاکستان کی معیشت بتدریج بحال ہو رہی ہے، اس کی وجہ سے صنعت اور خدمات کے شعبوں میں قابل ذکر توسیع ہوئی۔
اے ڈی بی کے عہدیدار نے کہا کہ بڑھتی ہوئی افراط زر اور بیرونی عدم توازن پر قابو پانے کے لیے مناسب مالی اور مالیاتی پالیسیوں کے ساتھ اسٹرکچرل ریفارمز جاری رکھنا کلیدی حیثیت رکھتا ہے۔
درآمد شدہ خوراک اور توانائی کی مصنوعات کی اونچی قیمتیں تجارتی خسارہ بڑھا دے گی، بیرونی عدم توازن مزید خراب اور مقامی کرنسی پر دباؤ کا باعث ہوگی۔
مزید بتایا گیا کہ تخمینے سے زیادہ کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ اور پاکستانی روپیہ کا کمزور ہونا مالیاتی استحکام کو کمزور کر دے گا۔
واضح رہے کہ آئی ایم ایف کی توسیعی فنڈ سہولت ستمبر 2022 میں اختتام پذیر ہونے والی ہے، اصلاحات کی کوششوں کا ممکنہ خاتمہ درمیانی مدت میں مالیاتی اور قرض کے نکتہ نظر کو متاثر کر سکتا ہے۔
رواں سال جنوری میں مالیاتی تنگی، آٹوموبائل فنانسنگ پر پابندیوں اور اضافی مالیاتی استحکام کے اقدامات سے گھریلو طلب میں کمی متوقع ہے۔
مالی سال 2023 میں تیز رفتار ترقی کی پیش گوئی مستحکم نجی کھپت اور سرمایہ کاری کی عکاسی کرتی ہے کیونکہ اہم اسٹرکچرل ریفارمز اور وسیع ترمعاشی استحکام گھریلو اور کاروباری اعتماد کو فروغ دیتا ہے۔
حکومت کی جانب سے امدادی اشیا کا پیکج اور گندم اور گنے کی امدادی قیمتوں میں اضافے سے رواں مالی سال میں زراعت کو ملنے والے فوائد جاری رہیں گے۔
اے ڈی بی کی رپورٹ میں کہا گیا کہ لیکن صنعت کی ترقی میں کمی آئے گی جو مالی اور مالیاتی تنگی کی عکاسی کرتی ہے، مقامی کرنسی کی قدر میں کمی ہوگی جس کے نتیجے میں خام مال اور کیپٹل گڈز کی درآمدات بڑھ جاتی ہیں اور گھریلو تیل اور بجلی کی قیمتوں میں ایڈجسٹمنٹ ہوتی ہے۔
بتایا گیا کہ بڑی مینوفیکچرنگ پر مشتمل نصف سے زیادہ صنعت ستمبر 2021 سے کمزور پڑی ہے، مالی سال 2022 کے پہلے 5 مہینوں میں نمو 3.5 فیصد رہ گئی جو مالی سال 2021 کی اسی مدت میں 6.9 فیصد تھی۔
اے ڈی بی نے کہا کہ توقع کی جاتی ہے کہ تعمیرات سے صنعت کو مدد ملے گی، جس میں عوامی سرمایہ کاری کے بھاری اخراجات اور مالی مراعات سے مدد ملے گی۔
رپورٹ میں بتایا گیا کہ مینوفیکچرنگ میں سست روی اور حکومت کے اسٹیبلائزیشن پروگرام کے نفاذ سے 2022 میں ترقی میں اس شعبے کا تعاون کم ہونے سے سروسز کی شرح کم ہونے کا امکان ہے۔
اس ضمن میں بتایا گیا کہ مالی سال 2022 میں مہنگائی کی اوسط 11.0 فیصد تک بڑھنے کا امکان ہے، پہلے 8 مہینوں میں مہنگائی کی مجموعی شرح 10.5 فیصد تک پہنچ چکی ہے، جو توانائی کی بلند بین الاقوامی قیمتوں، کرنسی کی نمایاں گراوٹ اور سپلائی میں خلل کی وجہ سے خوراک کی عالمی قیمتوں میں اضافے کی عکاسی کرتی ہے۔
فروری 2022 میں دیہی علاقوں میں بنیادی افراط زر بڑھ کر 9.4 فیصد اور شہری علاقوں میں 7.8 فیصد ہو گئی جوکہ جاری اقتصادی بحالی کی عکاسی کرتی ہے۔
پیش گئی کی گئی ہے کہ پاکستان تیل اور قدرتی گیس کا اہم درآمد کنندہ ہے، جوکہ کُل درآمدات کا تقریباً 20 فیصد ہیں، اس لیے ملک کو روس کے یوکرین پر حملے کے بعد ایندھن کی عالمی قیمتوں میں اضافے سے رواں مالی سال کے بقیہ حصے میں سخت افراط زر کے دباؤ کا سامنا رہے گا۔
اس حوالے سے بتایا گیا کہ طویل تنازع، گندم کی قیمتوں میں اضافے کا سبب بن سکتا ہے اور غذائی افراط زر کو بڑھا سکتا ہے کیونکہ یوکرین، پاکستان کی گندم کی درآمد کا ایک اہم ذریعہ ہے۔
حکومتی اقدامات کا حوالہ دیتے ہوئے کہا گیا کہ جنوری 2022 میں کیے گئے ٹیکس کے اضافی اقدامات قیمتوں میں ایک بار اضافے کا سبب بنیں گے، مالی سال 2023 میں افراط زر کا دباؤ کم ہونے کا امکان ہے کیونکہ مالیاتی استحکام آگے بڑھنے اور تیل اور اجناس کی قیمتیں مستحکم ہونے سے افراط زر کی شرح معتدل رہنے سے 8.5 فیصد تک رہنے کی توقع ہے۔
رپورٹ میں بتایا گیا کہ جنوری 2022 میں نافذ کیے گئے ٹیکس اقدامات، پیٹرولیم لیوی کی شرح میں مزید اضافے کی منصوبہ بندی اور ٹیکس نیٹ وسیع کرنے کے لیے اضافی پالیسی اور انتظامی اقدامات پر مالیاتی محصولات کی تجدید شدہ تیزی سے مزید استحکام کی توقع ہے۔