اگر اسٹیٹ بینک ہاتھ سے نکلنے کی کوشش کرے گا تو خودمختاری ختم کردیں گے، وزیر خزانہ

وزیر خزانہ شوکت ترین نے کہا ہے کہ یہ کہنا غلط ہے کہ اسٹیٹ بینک کی خود مختاری پر سمجھوتہ کیا جا رہا ہے کیونکہ اسٹیٹ بینک کی اصل اتھارٹی بورڈ کے پاس ہو گی اور اگر اسٹیٹ بینک ہاتھ سے نکلنے کی کوشش کرے گا تو اس کی خودمختاری ختم کردیں گے۔

قومی اسمبلی اجلاس کے بعد اسلام آباد میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے وزیر خزانہ نے کہا کہ عام آدمی کو ٹیکسز کی مد میں دیا گیا دو ارب روپے کا ٹیکس لگا رہے ہیں، اس میں بڑے آئٹمز میں پرسنل کمپیوٹرز، سلائی مشین، ماچس کے ڈبے، مصالحہ جات وغیرہ شامل ہیں۔

ان کا کہنا تھاکہ جب ہم نے ری ٹیکسز ری فنڈ کرنے کی بات کی تو آئی ایم ایف نے پوچھا کہ آپ پیسے کیسے جمع کریں گے تو ہم نے جواب دیا کہ ہمارا مقصد پیسے اکٹھا کرنا نہیں کیونکہ وہ تو ہم ویسے ہی کر چکے ہیں بلکہ اپنے ہدف سے آگے جا رہے ہیں بلکہ اصل مسئلہ دستاویزی شکل دینا ہے۔

انہوں نے کہا کہ جو لوگ دستاویزی شکل نہیں دیں گے انہیں ری فنڈ بھی نہیں ملے گا، ہم ٹیکسز کا بوجھ نہیں ڈالنا چاہتے اور جن چیزوں پر ٹیکس لگایا گیا ہے ان میں سے اکثریت اشرافیہ استعمال کرتی ہے۔

شوکت ترین نے کہا کہ آئی ایم ایف سے بہت لڑائی ہوئی اور ہم نے ان سے کہا کہ ہم ٹیکس پر ٹیکس نہیں لگنے دیں، پراویڈنٹ فنڈ پر ٹیکسز کی چھوٹ بھی ختم نہیں کی، اشیائے خورونوش، خام مال، اسٹیشنری، مشینری اور لیپ ٹاپ اور دیگر اشیا پر سیلز ٹیکس نہیں لگے گا۔

ان کا کہنا تھا کہ زرعی ٹریکٹر، کھاد، کیڑے مار ادویہ، پرانے کپڑوں، سینما کے آلات پر بھی ہم نے ٹیکس نہیں لگنے دیا لیکن ہمارے ہاں اس پر ایک واویلا مچایا ہوا ہے۔

انہوں نے کہا کہ ہمارا کُل سیلز ٹیکس 3کھرب کا ہے اور اس میں نے صرف دو ارب روپے کا بوجھ عوام پر ڈالا ہے تو اس سے مہنگائی کا کونسا طوفان آ جائے گا اور جن امپورٹڈ اشیا پر 71ارب کا ٹیکس لگایا گیا ہے وہ عام آدمی استعمال نہیں کرتا۔

ان کا کہنا تھا کہ آئی ایم ایف نے ہم سے 700ارب کے ٹیکس لگانے کا مطالبہ کیا جس کو ہم کم کر کے 343ارب پر لے کر آئے اور ہم اس ٹیکس کو بھی ری فنڈ اور ایڈجسٹ کردیں گے۔

وزیر خزانہ نے کہا کہ ہم نے ایسی کوئی حرکت نہیں کی جس سے عام آدمی پر بوجھ پڑے البتہ اس کو دستاویزی شکل دینے کی ان کی بات میں وزن تھا جس کو ہم نے تسلیم کیا۔

اسٹیٹ بینک کی ترمیم کے حوالے سے انہوں نے کہاکہ تحریک انصاف کی حکومت اداروں کو خودمختاری دینا چاہتی ہے تاکہ وہ مضبوط ہوں اور جب تک ہم اداروں کو اختیارات نہیں دیں گے اور مداخلت کرتے رہیں گے تو وہ کبھی مضبوط نہیں ہوں گے۔

ان کا کہنا تھا کہ آئی ایم ایف نے ہم سے کہا کہ اسٹیٹ بینک کے ساتھ برا رویہ رکھا جا رہا ہے کیونکہ جس حکومت کا دل چاہتا ہے وہ صفر شرح پر قرض لے لیتی ہے اور پھر نوٹ چھاپنا شروع کردیتے ہیں۔

شوکت ترین نے کہا کہ ہمیں اسٹیٹ بینک کے 6.4کھرب روپے دینے ہیں اور جب یہ حکومت آئی تھی تو ہمیں سات سے آٹھ کھرب روپے دینا تھے، اس طرح قرض لینے سے مہنگائی بڑھتی ہے لہٰذا آئی ایم ایف نے ہمیں پابند کیا کہ آپ اسٹیٹ بینک سے قرض نہیں لے سکیں گے۔

انہوں نے دعویٰ کیا کہ اس حکومت نے اب تک اسٹیٹ بینک سے ایک روپیہ بھی قرض نہیں لیا ہے لہٰذا یہ کہنا غلط ہے کہ خود مختاری پر سمجھوتہ کیا جا رہا ہے، ہم ڈھائی سال سے اسٹیٹ بینک سے پیسہ نہیں لے رہے تو اس دوران ہماری کونسی خودمختاری پر سمجھوتہ ہو گیا۔

ان کا کہنا تھا کہ اس کے علاوہ بل میں کہا گیا ہے کہ ہم انہیں انتظامی طور پر خودمختاری دیں جس سے تنخواہیں وغیرہ ان کا بورڈ خود طے کر سکتا ہے۔

انہوں نے واضح الفاظ میں کہا کہ اسٹیٹ بینک کی اصل اتھارٹی بورڈ کے پاس ہو گی، نان ایگزیکٹو بورڈ سارے فیصلے کرے گا، بورڈ کے لیے نامزدگیوں اور اس کی منظوری کا اختیار مانگا گیا لیکن ہم نے اسے مسترد کردیا اور کہا کہ یہ اختیار حکومت پاکستان کے پاس ہو گا لہٰذا یہ ابہام نکال دیں کہ ہم نے اپنی آزادی بیچ دی ہے۔

شوکت ترین نے مزید تفصیلات بتاتے ہوئے کہا کہ اسٹیٹ بینک آف پاکستان اب پارلیمان اور ان کی قائمہ کمیٹیوں کو بھی جوابدہ ہو گا اور وہ ان سے براہ راست پوچھ سکتے ہیں کہ آپ کیا کررہے ہیں تو ہم نے پارلیمان کی خودمختاری کو تقویت دی۔

انہوں نے کہا کہ اگر فرض کریں اسٹیٹ بینک ہمارے ہاتھ سے نکلنے کی کوشش کرے گا، حالانکہ یہ ہونا نہیں چاہیے لیکن اگر ایسا ہوا تو ہم سادہ اکثریت کے ساتھ اس کی خودمختاری ختم کردیں گے، اس میں کیا مسئلہ ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ دنیا بھر کے اسٹیٹ بینک آزاد اور خودمختار ہوتے ہیں اور جس جس نے انہیں آزادی نہیں دی وہ اس کا خمیازہ بھگت رہے ہیں، ترکی نے بات نہیں سنی تو دیکھیں وہاں مہنگائی اور زرمبادلہ کے ذخائر کہاں جا رہے ہیں لہٰذا اچھے ملکوں کے اسٹیٹ بینک خودمختار ہیں اور ہم نے کوئی انوکھی چیز نہیں کی۔

وزیر خزانہ نے کہا کہ تجارتی خسارے کی وجہ سے ہم لگژری گاڑیوں پر ٹیکس بڑھا رہے ہیں کیونکہ ہم نے جیسے ہی ٹیکس کم کیے تو لوگوں نے پیٹرول گاڑیاں بیچ کر الیکٹرک گاڑیاں خریدنی شروع کردی ہیں۔

ایک سوال پر انہوں نے کہا کہ ہمارے یہاں مہنگائی کی شرح ساڑھے 11 فیصد ہے تو شوکت ترین تو چلیں فیل ہو گیا لیکن امریکا میں مہنگائی کی شرح ایک فیصد سے 6.8 پر پہنچ گئی ہے تو کیا بائیڈن بھی فیل ہو گیا ہے، برطانیہ میں ساڑھے پانچ فیصد مہنگائی ہے تو کیا بورس جانسن بھی فیل ہو گیا، جرمنی میں بھی یہی ہو رہا ہے، اگر وہ فیل ہو گئے ہیں تو میں بھی ہو گیا ہوں۔

اپنا تبصرہ بھیجیں