اپوزیشن جماعتوں نے حکومت کو دھمکی دی ہے کہ اگر پیر تک تحریک عدم اعتماد پر قومی اسمبلی میں کارروائی شروع نہیں کی گئی تو ایوان میں دھرنا دیں گے جہاں اسلامی تعاون تنظیم (او آئی سی) کا اجلاس شیڈول ہے۔
اسلام آباد میں اپوزیشن جماعتوں کے اجلاس کے بعد دیگر رہنماؤں کے ہمراہ میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے پاکستان پیپلزپارٹی (پی پی پی) کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے کہا کہ میں پاکستان کے عوام اور قوم کو مبارک باد دینا چاہوں گا کہ عمران خان اکثریت کھو چکے ہیں اور تحریک انصاف کی حکومت تقریباً ختم ہوچکی ہے۔انہوں نے کہا کہ یہ پاکستان کے عوام اور پاکستان کی جیت ہے کہ ہم جمہوریت کی بحالی کی طرف بڑھ رہے ہیں، عمران خان اپنی شکست دیکھتے ہوئے اب غیرجمہوری روایات لا رہے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ گالم گلوچ کے علاوہ اب وہ فورس استعمال کرنے کی کوشش کر رہے ہیں، پہلے پارلیمان کے لارجز اور پارلیمان کے اراکین پر حملہ ہوا، یہ جمہوریت اور پارلیمان پر حملہ تھا، لارجز پارلیمان کا حصہ ہے اس لیے قومی اسمبلی پر حملہ تھا۔
انہوں نے کہا کہ یہ سلسلہ یہاں نہیں رکا، پھر وزیراعظم نے سندھ ہاؤس پر حملہ کرکے وفاق پر حملہ کیا اور دھمکی دے رہا ہے وہ نہیں کھیل سکتا ہے اور کسی کو بھی نہیں کھیلنے دےگا۔
بلاول بھٹو نے کہا کہ جو سازش وہ بنانے کی کوشش کر رہا ہے کہ کسی طرح تشدد کے ذریعے پارلیمان کے اراکین کو اپنا ووٹ استعمال نہ کرنے دیں، غیرجمہوری طریقے سے، دھونس اور دھاندلی سے بچ جائیں یا ایسی صورت حال ہو کہ آئینی بحران پیدا ہو اور ایک تیسری فورس کو موقع ملے۔
ان کا کہنا تھا کہ پاکستان کی جمہوری جماعتیں، پاکستان کا ہر شہری عمران خان کو وارننگ دے رہا ہے کہ آپ ایسا نہ سوچیں، کھلاڑی رہے ہیں اور آخری اننگز میں اتنے کھلے طریقے سے بال ٹمپرینگ نہ کریں۔
انہوں نے کہا کہ 172 کی تعداد دکھائیں یا گھر چلے جائیں، یہ آخری وارننگ ہے۔
اسپیکر قومی اسمبلی کو مخاطب کرکے انہوں نے کہا کہ آپ اسپیکر ہیں، آپ کا کردار تاریخ میں لکھا جائے گا، آپ نے جو بیانات دیے ہیں، پی ٹی آئی کے اجلاس میں شرکت کی ہے، وہ عہدے کی توہین ہے۔
چیئرمین پی پی پی ہمیں اب بتایا جارہا ہے کہ یہ اسپیکر آئین، قانون اور پارلیمان کے قواعد توڑنے کے لیے تیار ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ گالم گلوچ کے علاوہ اب وہ فورس استعمال کرنے کی کوشش کر رہے ہیں، پہلے پارلیمان کے لارجز اور پارلیمان کے اراکین پر حملہ ہوا، یہ جمہوریت اور پارلیمان پر حملہ تھا، لارجز پارلیمان کا حصہ ہے اس لیے قومی اسمبلی پر حملہ تھا۔
انہوں نے کہا کہ یہ سلسلہ یہاں نہیں رکا، پھر وزیراعظم نے سندھ ہاؤس پر حملہ کرکے وفاق پر حملہ کیا اور دھمکی دے رہا ہے وہ نہیں کھیل سکتا ہے اور کسی کو بھی نہیں کھیلنے دےگا۔
بلاول بھٹو نے کہا کہ جو سازش وہ بنانے کی کوشش کر رہا ہے کہ کسی طرح تشدد کے ذریعے پارلیمان کے اراکین کو اپنا ووٹ استعمال نہ کرنے دیں، غیرجمہوری طریقے سے، دھونس اور دھاندلی سے بچ جائیں یا ایسی صورت حال ہو کہ آئینی بحران پیدا ہو اور ایک تیسری فورس کو موقع ملے۔
ان کا کہنا تھا کہ پاکستان کی جمہوری جماعتیں، پاکستان کا ہر شہری عمران خان کو وارننگ دے رہا ہے کہ آپ ایسا نہ سوچیں، کھلاڑی رہے ہیں اور آخری اننگز میں اتنے کھلے طریقے سے بال ٹمپرینگ نہ کریں۔
انہوں نے کہا کہ 172 کی تعداد دکھائیں یا گھر چلے جائیں، یہ آخری وارننگ ہے۔
اسپیکر قومی اسمبلی کو مخاطب کرکے انہوں نے کہا کہ آپ اسپیکر ہیں، آپ کا کردار تاریخ میں لکھا جائے گا، آپ نے جو بیانات دیے ہیں، پی ٹی آئی کے اجلاس میں شرکت کی ہے، وہ عہدے کی توہین ہے۔
چیئرمین پی پی پی ہمیں اب بتایا جارہا ہے کہ یہ اسپیکر آئین، قانون اور پارلیمان کے قواعد توڑنے کے لیے تیار ہے۔
انہوں نے کہا کہ یہ سب کچھ عمران خان نیازی کی ایما پر کیا گیا اور سندھ ہاؤس پر حملہ کوئی معمولی بات نہیں، یہ حملہ صرف سندھ کی دھرتی پر نہیں ہوا بلکہ پاکستان کی دھرتی پر ہوا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ آج یہ واقعہ ہوا کل خدانخواستہ جو آئین شکن ہیں اور آئین کو نہیں اور کہتے ہیں اراکین اسمبلی کو 10 لاکھ لوگوں کے جتھے سے گزرنا پڑے گا اور واپس بھی جانا پڑے گا۔
قائد حزب اختلاف نے کہا کہ اسپیکر پی ٹی آئی کے ایک ورکر کی زبان میں بات کر رہا ہے، یہ پاکستان کی جمہوریت کے لیے خطرناک ہے، اپوزیشن نے بڑا دل کر کے سب جانتے تھے کہ بدترین دھاندلی ہوئی ہے اور دھاندلی کی پیداوار حکومت اور وزیراعظم کو دل پر پتھر رکھ کر اس لیے برداشت کیا تھا کہ جمہوریت کا پودا کھلنے سے پہلے مرجھا نہ جائے۔ انہوں نے کہا کہ آج وہی شخص جو پونے چار سال پہلے کنٹینر پر ناخدا کی آواز میں بول رہا تھا، اس نے آج جمہوریت کی دھجیاں بکھیر دی ہیں اور پاکستان کے اندر فاشزم پھیلائی ہے۔
وزیراعظم کی جانب اشارہ کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ اس کو اگر یہ سمجھ میں آگئی ہے کہ متحدہ اپوزیشن ایک جمہوری اور قانونی ور آئینی طریقے سے عدم اعتماد کی تحریک لے کر آئی ہے وہ کامیاب ہوگی تو وہ اپنے اقتدار کے لیے تمام حدیں پھلانگنے کے لیے تیار ہے اور آج کہہ رہا ہے ان لوگوں نے پیسے لیے ہیں، ان کے منہ پر طمانچہ خود ان کے اتحادیوں نے مارا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ان کے معتبر اتحادیوں نے کہا کہ کہیں ایک پیسہ کوئی خرچ نہیں ہوا، کوئی ہارس ٹریڈنگ نہیں ہوئی، ان کے اتحادی ان اراکین کی پاکی کی گواہی دے رہے ہیں، جنہوں نے قرآن کریم پر کہا کہ ایک دھیلہ لیا اور نہ خواہش کا اظہار کیا۔
شہبازشریف کا کہنا تھا کہ خود پی ٹی آئی کے اراکین اپنے حلقوں میں نہیں جاسکتے کیونکہ ان کے حلقوں میں مہنگائی اور بے روزگاری نے جو تباہی مچائی ہے، یہ اس کا ازالہ کرنے کے لیے اپنے ضمیر کے مطابق ووٹ دیتے ہیں تو یہ ان کی اپنی مرضی ہے۔
انہوں نے کہا کہ یہ کہتے ہیں ہارس ٹریڈنگ ہو رہی ہے تو وہ بھول گئی کہ جو سینیٹ میں انہوں نے ووٹ خریدے تھے، پی ٹی آئی کو اپنا کالا چہرہ دیکھنا چاہیے جہاں انہوں نے ہارس ٹریڈنگ کی۔
ان کا کہنا تھا کہ بلوچستان میں پی ٹی آئی نے ہارس ٹریڈنگ نہیں کی، آزاد کشمیر، گلگت بلتستان اور زندہ مثال ہے پنجاب میں مسلم لیگ (ن) کے 6 اراکین کو علیحدہ کیا اور خود سلیکٹڈ وزیراعظم ان سے وزیراعلیٰ ہاؤس میں ان سے ملا، جو پوری دنیا نے دیکھا۔
انہوں نے کہ کیا وزیراعلیٰ ہاؤس یقیناً ایک گھناؤنے جرم میں ملوث نہیں ہوا، یہاں پر تو لوگ ایک مقصد کے لیے اپنی ضمیر کے مطابق آگے آگئے ہیں لیکن پنجاب میں تو کوئی ایسی بات نہیں تھی، صرف انہیں لالچ دے کر لے گئے ہیں اور پھر الزام ہم پر دیتے ہیں۔
قائد حزب اختلاف نے کہا کہ ہم عمران خان کو ڈنکے کی چوٹ پر کہنا چاہتے ہیں کہ آئین اور قانون کا راستہ اپنانا چاہتے ہیں، جس کو جیت کا یقین ہو وہ کبھی بھی لڑائی اور دھینگا مشتی نہیں چاہتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ ہم چاہتے ہیں کہ ہمیں آئین اور قانون کے راستے سے جانے کی اجازت دی جائے اور سب کو ووٹ کا حق استعمال کرنے کی اجازت ہونی چاہیے۔
ان کا کہنا تھا کہ میں اسپیکر کو وارننگ دینا چاہتا ہوں کہ آپ اسپیکر بن کر اپنا کردار ادا کریں ورنہ تاریخ میں آپ کا نام بہت ہی برے الفاظ میں لکھا جائے گا۔
شہباز شریف نے کہا کہ اسپیکر کے پاس اب بھی وقت ہے کہ وہ ہوش کے ناخن لیں اور عمران خان کا آلہ کار نہ بنیں اور جمہوریت کو ڈی ریل نہ ہونے دیں ورنہ تاریخ اور عوام آپ کو کبھی معاف نہیں کریں گے۔
انہوں نے کہا کہ آج بتانا مقصود یہ تھا کہ یہ تمام لوگ اپنے آزاد من اور اپنے ضمیر سے ٹی وی میں جو کچھ کہا اور آج بھی چند لوگ کہہ رہے ہیں، کسی نے ان کو نہ تو روکا اور نہ کسی نے کچھ کہا ہے بلکہ وہ اپنی مرضی سے کر رہے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ جو لوگ ہمیں طعنہ دے رہے ہیں وہ اپنے گریبان میں جھانکیں، بلوچستان سے لے کر گلگت بلتستان، آزاد کشمیر اور پنجاب میں بوریوں کے منہ کھولے، اس کا کس کو علم نہیں ہے۔
قائد حزب اختلاف نے کہا کہ میں اسلام آباد کے آئی جی، کمشنر، ڈپٹی کمشنر اور انتظامیہ کو وارننگ دے رہا ہوں کہ اگر آپ نے آئینی اور قانونی راستے میں رکاؤٹ ڈالی اور عمران نیازی کے آلہ کار بنے تو قانون آپ کو اپنی گرفت لے کر کٹہرے میں کھڑا کرے گا پھر ہمیں گلہ مت کرنا۔
اب ہم یہ جنگ جیت چکے ہیں، مولانا فضل الرحمٰن
مولانا فضل الرحمٰن نے کہا کہ ہم روز اول سے اس قومی مجرم کے مقابلے میں میدان میں کھڑے ہیں اور حق کا علم لہراتے ہوئے آگے بڑھے ہیں اور آج وہ منزل آں پہنچی ہے۔
انہوں نے کہا کہ اس طرح کے نااہل اور ناجائز حکمران کیفر کردار تک پہنچیں گے اور شکست سے دو چار ہو کر جس طرح گھر جائیں گے، تاریخ کے صفحات پر یہ الفاظ بھی رقم ہوں گے۔
ان کا کہنا تھا کہ اس وقت جلسوں میں جو زبان استعمال کی جارہی ہے وہ ایک سیاسی لیڈر تو بہت بڑی بات ہے، ایک گھٹیا انسان بھی اتنے بڑے جلسوں میں اس طرح کی زبان استعمال نہیں کرتے، اگر شرافت قریب سے بھی گزرتی تو یہ زبان استعمال نہیں ہوتی، ہم نے اس کی پرواہ نہیں کی۔
ان کا کہنا تھا کہ گالی کی سیاست ہم نے نہ قوم کو سکھائی ہے اور نہ ہی اپنے کارکن کو سکھائی ہے، ہاں جرات، شجاعت اور بہادری کی سیاست ہم نے اپنے گھر میں بھی سیکھی ہےاور ہمیں ماؤں نے ہمیں جو دودھ پلایا ہے وہ جرات اور بہادری کا ہے اور اس طرح کے ناجائز لوگوں کے سامنے جھکنے کا درس ہمیں نہیں دیا ہے۔
وزیراعظم عمران خان کا حوالہ دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ کبھی خود اپنے اراکین سے کہتا ہے کہ آپ کی مرضی ہے جہاں ووٹ دینا چاہیے لیکن آج ان کے اپنے اراکین ان کے خلاف ووٹ ڈالنے کی طرف جارہے ہیں اور ان کو گالیاں دے رہا ہے۔
مولانا فضل الرحمٰن نے کہا کہ جب جہاز اڑا اڑا کر ان کو تلاش کرتے رہے اور پھر وہ آپ کے پاس آتے تھے تو اس وقت آپ نے ان کو ضمیر کی آواز کہا اور آج ان کے لیے کبھی گدھے اور کبھی خچر کے الفاظ استعمال کرتے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ اب ہم یہ جنگ جیت چکے ہیں اور جو تھوڑا سا عرصہ باقی ہے، اس کو بھی بڑی کامیابی کے ساتھ ہم انجام تک پہنچائیں گے اور ان کو گھر چلتا کریں گے۔