او آئی سی کمیشن کی مقبوضہ کشمیر میں نئی حلقہ بندیوں کی مذمت

اسلامی تعاون تنظیم (او آئی سی) کے آزاد انسانی حقوق کمیشن (آئی پی ایچ آر سی) نے بھارتی حکومت کی جانب سے مقبوضہ جموں و کشمیر میں حالیہ حلقہ بندیوں کی پُرزور مذمت کرتے ہوئے اسے او آئی سی اور اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قراردادوں کی خلاف وزری قرار دیا ہے۔

نئی دہلی نے مقبوضہ کشمیر کے لیے پچھلے ہفتے نئی سیاسی حلقہ بندیوں کی فہرست جاری کی تھی جس میں مسلم اکثریتی علاقوں میں ہندو آبادی کو بہت بڑی نمائندگی دی گئی ہے اور نئے انتخابات کے لیے راستہ ہموار کیا جارہا ہے۔

2019 میں بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی کی حکومت نے مقبوضہ کشمیر میں اپنا قبضہ مزید مضبوط کرنے کے لیے خطے کو دو وفاقی اکائیوں میں تقسیم کردیا تھا۔

مقبوضہ خطہ اصل میں مسلم اکثریتی وادی کشمیر، ہندو اکثریتی جموں کے خطے اور لداخ کے دور دراز بدھ مت انکلیو پر مشتمل تھا۔

تاہم ایک ماہ قبل بھارتی حکومت نے کہا تھا کہ ایک حد بندی کمیشن نے لداخ کو چھوڑ کر مقبوضہ کشمیر کی اسمبلی کے 90 حلقوں کو حتمی شکل دی ہے، جموں کے لیے 43 اور کشمیر کے لیے 47 نشستیں رکھی گئی ہیں، اس سے قبل جموں میں 37 اور وادی کشمیر کی 46 نشستیں تھیں۔

بھارت کی طرف سے بنائے گئی کمیشن نے ایک بیان میں خطے کے ’عجیب جغرافیائی ثقافتی منظر نامے‘ کا حوالہ دیتے ہوئے دعویٰ کیا تھا کہ مختلف اطراف سے مسابقتی دعوؤں کو ایڈجسٹ کرنا مشکل ہے۔

او آئی سی کے انسانی حقوق کمیشن نے جاری بیان میں کہا کہ بھارت کا یہ قدم عالمی انسانی حقوق اور انسانی قوانین کی خلاف وزری ہے۔

آئی پی ایچ آر سی نے کشمیری سیاسی قائدین کی جانب سے متفقہ طور پر ان اقدامات کو غیر قانونی قرار دینے کی حمایت کی ہے، جو ہندوتوا سے متاثر ہو کر غیر قانونی اقدامات مقبوضہ کشمیر میں بھارتی قابض حکومت نے 5 اگست 2019 کے بعد کیے تھے۔

بیان میں باور کروایا گیا کہ کشمیری سیاسی قائدین نے مقبوضہ کشمیر میں انتخابی سیاست کا ہمیشہ بائیکاٹ کیا، اسی طرح نئی حلقہ بندیوں کی بھارتی کوششوں کی بھی پُرزور مذمت کی۔

او آئی سی نے اس عمل کو ناپاک کوشش قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ انتخابی آبادیات کو تبدیل کرکے انتخابی نتائج پر اثر انداز ہو کر اپنی مرضی کی کٹھ پتلی حکومت لانا چاہتی ہے۔

بیان میں کہا گیا کہ یہ ظالمانہ اقدامات مسلم اکثریتی آبادی کو ان کی اپنی زمین پر اقلیت میں تبدیل کرنے کا مقصد ہے اور یہ ان کے حق خوداردایت کی راہ میں رکاوٹ ڈالنے کی کوشش ہے۔

کمیشن کا کہنا تھا کہ یہ اقدامات چوتھے جنیوا کنونشن کے تحت متعدد انسانی حقوق کے معاہدوں کی خلاف وزریاں بھی ہیں جس میں مقبوضہ کشمیر کی ڈیموگرافک میں کسی بھی تبدیلی سے منع کیا گیا ہے۔

بیان میں اقوام متحدہ اور عالمی برادری سے کہا گیا ہے کہ وہ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل اور او آئی سی کی متعلقہ قراردادوں پر عمل کرنے کے لیے بھارت پر دباؤ ڈالیں تاکہ وہ کسی بھی انتظامی اور قانونی عمل سے باز رہ سکے جو مقبوضہ کشمیر کی جغرفیائی اور آبادیاتی حیثیت کو ختم کرنے کے مترادف ہے۔

او آئی سی نے مزید کہا کہ کشمیریوں کی تمام تر بنیادی آزادی کو بحال کیا جائے اور تمام امتیازی قوانین کو ختم کیا جائے اور اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل اور اسلامی تعاون تنظیم کی متعلقہ قراردادوں کے عین مطابق کشمیری عوام کو آزاد اور منصفانہ رائے شماری کے ذریعے حق خودارادیت استعمال کرنے کی اجازت دی جائے۔

قبل ازیں پاکستان کے دفتر خارجہ نے کہا تھا کہ اس نے بھارتی ناظم الامور کو ایک ڈیمارش سونپا ہے جس میں حکومت پاکستان کی جانب سے نام نہاد ‘حد بندی کمیشن’ کی رپورٹ کو واضح طور پر مسترد کرنے سے آگاہ کیا گیا ہے۔

دفتر خارجہ کا کہنا تھا کہ اس رپورٹ کا مقصد بمقبوضہ جموں و کشمیر کی مسلم اکثریتی آبادی کو حق رائے دہی سے محروم اور انہیں طاقت سے دبانا ہے۔

دفتر خارجہ نے بھارت سے مطالبہ کیا کہ وہ مقبوضہ خطے میں کسی بھی غیر قانونی جغرافیائی تبدیلی سے پرہیز کرے اور مقبوضہ کشمیر میں اپنی جارحیت کو بند کرے اور کشمیری عوام کو اقوام متحدہ کی سرپرستی میں آزادانہ اور منصفانہ استصواب رائے کے ذریعے اپنے مستقبل کا خود تعین کرنے دے جیسا کہ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی متعلقہ قراردادوں میں درج ہے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں