پاکستان نے اسلام آباد میں منعقدہ اسلامی تعاون تنظیم (او آئی سی) کی کونسل برائے وزرائے خارجہ کے 48 اجلاس کے مشترکہ اعلامیے پر بھارت کے اعتراض کو من گھڑت اور غیرذمہ دارانہ قرار دیتے ہوئے مسترد کردیا۔
ترجمان دفترخارجہ عاصم افتخار کی جانب سے جاری بیان میں کہا گیا کہ ‘پاکستان 22 سے 23 مارچ تک اسلام آباد میں او آئی سی کی وزرائے خارجہ کونسل کے 48 ویں اجلاس میں منظور ہونے والی قراردوں پر بھارتی وزارت امور خارجہ کے من گھڑت اور غیرذمہ دارانہ بیان کو یکسر مسترد کرتا ہے’۔بیان میں کہا گیا کہ او آئی سی مسلم امہ کی متفقہ آواز ہے اور اقوام متحدہ کے بعد دنیا کی سب بڑی تنظیم ہے جس کے 57 اراکین اور 6 مبصر ممالک ہیں۔
دفترخارجہ نے بتایا کہ او آئی سی کا کشمیریوں کی جائز جدوجہد کے حق خود ارادیت پر ایک پائیدار مؤقف ہے جو انہیں اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی متعلقہ قراردادوں کے ذریعے ملا ہے۔
بیان میں کہا گیا کہ بھارت اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قراردادوں پر عمل درآمد سے انکار کرکے دہائیوں سے ظلم، فورسز کا بلاتفریق استعمال اور انسانی حقوق کی منظم خلاف ورزی کرتے ہوئے کشمیریوں کی آواز دبانے کی کوشش کر رہا ہے۔
ترجمان نے بیان میں کہا کہ بی جے پی-آر ایس ایس سے متاثر ہندو توا نظریات کی حامل حکومت کی جانب سے بھارت میں ریاستی سرپرستی میں اقلیتوں بالخصوص مسلمانوں کے زمین تنگ کردی گئی ہے۔
انہوں نے کہا کہ او آئی سی نے مقبوضہ جموں اور کشمیرمیں ہونے والی انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کی مذمت کی اور ایک مرتبہ پھر بھارت کے 5 اگست 2019 کے غیرقانونی اور یک طرفہ طور اقدامات کو یکسر مسترد کردیا ہے، جس کا مقصد مقبوضہ خطے کی جغرافیائی پوزیشن تبدیل کرنا تھا۔
دفترخارجہ نے کہا کہ اوآئی سی نے بھارت میں مسلمانوں کے خلاف وسیع طور پر پھیلی منافرت، امتیازی سلوک اور جرائم کو بھی مسترد کردیا ہے اور بھارت سے مطالبہ کیا ہے کہ مذہبی آزادی سمیت شہریوں کے حقوق یقینی بنائے جائیں۔
ان کا کہنا تھا کہ او آئی سی نے 9 مارچ کو بھارت کی جانب سے پاکستان میں سپر سونک میزائل فائر ہونے کے واقعے پر بھی گہری تشویش ظاہر کی۔
ترجمان نے کہا کہ بھارتی وزارت خارجہ کا بیان ان کی مایوسی کا اظہار ہوتا ہے کیونکہ وہ تنہائی کا شکار ہوگئے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ متنازع خطے کے بارے میں افسانوی دعوے اور تاریخی حقائق مسخ کرنے، جھوٹے دعووں کے ذریعے عالمی برادری کی توجہ ہٹانے کی کوششوں اور او آئی سی کی قراردادوں کے بجائے بھارت اپنے موجودہ رویے کا جائزہ لے اور ان تحفظات کو ختم کرنے کے لیے فوری طور پر ذمہ دارانہ کردار ادا کریں۔
خیال رہے کہ او آئی سی اجلاس کے بعد وزیرخارجہ شاہ محمود قریشی نے سیکریٹری جنرل حسین براہیم طحہ کے ہمراہ پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا تھا کہ او آئی سی رابطہ گروپ برائے کشمیر کے اجلاس میں ہم نے متعدد فیصلے کیے ہیں، ہم نے قراردادوں سے بڑھ کر ایکشن پلان مرتب کیا ہے اور مجھے توقع ہے کہ نیویارک، جنیوا اور جدہ میں ہمارے مندوبین کشمیر میں جاری انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں کو اجاگر کرنے کے لیے باقاعدہ اجلاس منعقد کرتے رہیں گے۔
ان کا کہنا تھا کہ اسلام آباد اعلامیہ آج کے اجلاس کا مرکزی حصول ہے، کشمیر پر بھرپور قرارداد سامنے آئی، مسئلہ کشمیر پر مشترکہ اعلامیہ رابطہ گروپ برائے کشمیر کے اجلاس کے بعد سامنے آیا۔
وزیر خارجہ نے کہا تھا کہ اقوام متحدہ کی قراردادوں کے باوجود مسئلہ کشمیر تاحال حل طلب ہے، مقبوضہ کشمیر میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کا سلسلہ جاری ہے۔