انتخابات ملتوی کیس:جب آرڈر آف دی کورٹ جاری نہیں ہوا تو صدر نے الیکشن کی تاریخ کیسے دی؟ جسٹس جمال

اسلام آباد: سپریم کورٹ میں پنجاب اور خیبر پختونخوا (کے پی) میں انتخابات ملتوی کرنے کے خلاف درخواست پر سماعت کے دوران جسٹس جمال مندوخیل کا کہنا تھا کہ جب آرڈر آف دی کورٹ جاری نہیں ہوا تو صدر نے الیکشن کی تاریخ کیسے دی؟الیکشن کمیشن نے کیسے الیکشن شیڈول جاری کیا؟

چیف جسٹس پاکستان عمر عطا بندیال کی سربراہی میں پانچ رکنی بینچ سماعت کررہا ہے۔

سپریم کورٹ میں سماعت شروع ہوئی تو  جسٹس جمال مندوخیل نے اپنے کل کے ریمارکس پر وضاحت کرتے ہوئےکہا کہ کل میرے ریمارکس پر بہت زیادہ کنفیوژن ہوئی ہے، میں اپنے ریمارکس کی وضاحت کرنا چاہتا ہوں، میں اپنے تفصیلی آرڈر پر قائم ہوں، فیصلے کا ایک حصہ انتظامی اختیارات کے رولز سے متعلق ہے، چیف جسٹس کو کہیں گے کہ رولز دیکھنے کے لیے ججز کی کمیٹی بنائی جائے، ججز کی کمیٹی انتظامی اختیارات کے رولز کو دیکھے، فیصلے کےدوسرے حصےمیں ہم 4 ججز نے ازخود نوٹس اور درخواستیں مستردکی ہیں۔

 چارججز کا فیصلہ ہی آرڈر آف دی کورٹ ہے:جسٹس جمال

جسٹس جمال مندوخیل کا کہنا تھا کہ چارججز کا فیصلہ ہی آرڈر آف دی کورٹ ہے،  یہ آرڈر آف دی کورٹ چیف جسٹس پاکستان نے جاری ہی نہیں کیا، جب فیصلہ ہی نہیں تھا تو صدر نے الیکشن کی تاریخ کیسے دی، الیکشن کمیشن نے کیسے الیکشن شیڈول جاری کیا؟ آج عدالت کے ریکارڈ کی فائل منگوالیں، اس میں آرڈر آف دی کورٹ نہیں ہے، آرڈر آف دی کورٹ پر تمام جج سائن کرتے ہیں۔

وکیل فاروق نائیک نے یکم مارچ کے فیصلے کی وضاحت کے لیے فل کورٹ بنانےکی استدعا کرتے ہوئے کہا کہ انصاف کےتقاضوں کے لیے ضروری ہے کہ یہ فیصلہ ہوکہ فیصلہ 4/3 تھا یا 3/2 کا، پورے ملک کی قسمت کا دار ومدار  اس مدعے پر ہے، قوم ایک مخمصے میں پھنسی ہوئی ہے، سپریم کورٹ کو عوام کی عزت، وقار اور اعتماد کو برقرار رکھنا ہے۔

چیف جسٹس نے فاروق نائیک کو ہدایت کی کہ اپنی درخواست تحریری طورپرجمع کرائیں، عدالت کے ماحول کو خراب نہ کیا جائے۔

فاروق نائیک کی فل کورٹ تشکیل دینے کی استدعا

فاروق نائیک کا کہنا تھا کہ کیس کی سماعت کے لیے فل کورٹ تشکیل دیا جائے، یہ کیس سننے سے  پہلے اس بات کا فیصلہ ہونا چاہیےکہ فیصلہ 4/3 کا ہے، پہلے دائرہ اختیار کے معاملے پر فیصلہ کریں۔

چیف جسٹس پاکستان کا کہنا تھا کہ  اس مدعے پر فیصلہ تب کریں گے جب درخواست سامنے ہو، پرسکون رہیں، پرجوش نہ ہوں۔

چیف جسٹس نے کہا کہ پہلے ہم الیکشن کمیشن کو سنیں گے، آپ تمام لوگ پی ڈی ایم کی نمائندگی کر رہے ہیں۔ اس پر فاروق نائیک کا کہنا تھا کہ  پیپلزپارٹی پی ڈی ایم کا حصہ نہیں اتحادی حکومت کا حصہ ہے۔     

الیکشن کمیشن کے وکیل سجیل سواتی روسٹرم پر آئے تو جسٹس جمال نے کہا کہ پہلے الیکشن کمیشن یہ بتائے کہ انہوں نے شیڈول جاری کیسے کیا؟ الیکشن کمیشن کے پاس جب آرڈرآف دی کورٹ آیا ہی نہیں تو اس نےعمل کیسےکیا؟  سپریم کورٹ کا حکم وہ ہوتا ہے جو آرڈر آف دی کورٹ ہو، وہ جاری نہیں ہوا، کیا  آپ نے عدالت کا مختصر حکم نامہ دیکھا تھا؟ وکیل الیکشن کمیشن نے جواب دیا کہ  ممکن ہے فیصلہ سمجھنے میں ہم سے غلطی ہوئی ہو۔

جسٹس منیب اختر کا کہنا تھا کہ کیا مختصر حکم نامے میں لکھا ہے کہ فیصلہ 4/3 کا ہے؟ یکم مارچ کے فیصلے میں کہیں درج نہیں کہ فیصلہ 4/3 کا ہے، اختلاف رائے جج کا حق ہے، ججز کی اقلیت کسی قانون کے تحت خود کو اکثریت میں ہونےکا دعویٰ نہیں کرسکتی۔

جسٹس جمال مندوخیل کا کہنا تھا کہ گزشتہ روز کے ریمارکس فیصلے کے انتظامی حصے کی حد تک تھے۔ جسٹس منیب اختر کا کہنا تھا کہ کھلی عدالت میں 5 ججز نے مقدمہ سنا اور فیصلہ دے کر دستخط بھی کیے۔

کیا جسٹس یحیٰی اورجسٹس اطہرکے فیصلے ہوا میں تحلیل ہوگئے؟ جسٹس جمال

جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ مختصرحکم نامے میں لکھا ہے کہ اختلافی نوٹ لکھے گئے ہیں، اختلافی نوٹ میں واضح لکھا ہے کہ جسٹس یحیٰی آفریدی اور جسٹس اطہر من اللہ کے فیصلے سے متفق ہیں، کیا جسٹس یحیٰی آفریدی اورجسٹس اطہرمن اللہ کے فیصلے ہوا میں تحلیل ہوگئے؟

چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ جو معاملہ ہمارے چیمبرکا ہے اسے وہاں ہی رہنے دیں، اٹارنی جنرل اس نقطہ پر اپنے دلائل دیں گے۔

جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ تفصیلی فیصلے کے بعد الیکشن کمیشن کا کیا موقف ہے؟

وکیل سجیل سواتی نے کہا کہ  چار تین کے فیصلے پر الیکشن کمیشن سے ہدایات نہیں لیں، الیکشن کمیشن نے صاف شفاف انتخابات کے انعقاد کے لیےکوششیں کیں، الیکشن کمیشن نے سیکشن57 کے تحت الیکشن کی تاریخ بھی تجویز کی، سپریم کورٹ کا فیصلہ 3 مارچ کو موصول ہوا تھا، الیکشن کمیشن نے اپنی سمجھ کے مطابق فیصلے پرعملدرآمد شروع کیا، الیکشن کمیشن نے ووٹ کے حق اور شہریوں کی سکیورٹی کو بھی دیکھنا ہے، صدر کی طرف سے تاریخ ملنے  پر انتخاباتی شیڈول بھی جاری کردیا تھا۔

آرٹیکل17 ووٹنگ پرامن ماحول میں ہونےکی بات کرتا ہے: وکیل الیکشن کمیشن

جسٹس منیب اختر نے کہا کہ الیکشن کمیشن کے 22 مارچ کے فیصلہ کو چیلنج کیا گیا ہے، الیکشن کمیشن نے 22 مارچ کا آرڈر کس وقت جاری کیا؟ وکیل الیکشن کمیشن نے بتایا کہ انتخابات ملتوی کرنے کا حکم 22 مارچ شام کو جاری کیا، جب آرڈر جاری کیا تو کاغذات نامزدگی سمیت شیڈول کے مراحل مکمل ہوچکے تھے، فوج نے الیکشن کمیشن کو سکیورٹی دینے سے انکار کیا، آرٹیکل17 ووٹنگ کا حق پرامن ماحول میں پورا ہونے کی بات کرتا ہے، آئین کے مطابق انتخابات صاف شفاف پرامن سازگار ماحول میں ہونے چاہئیں، الیکشن کمیشن نے2 فروری کو فوج، رینجرز  اور ایف سی کوسکیورٹی کے لیے خط لکھے، خیبرپختونخوا میں خفیہ ایجنسیوں نے رپورٹس دیں کہ افغانستان سے دہشت گرد داخل ہوچکے، خفیہ ایجنسی کے اہلکاروں کے ساتھ الیکشن کمیشن کے اجلاس بھی ہوئے۔

خیبرپختونخوا میں دہشت گردی سے متعلق رپورٹس سنجیدہ ہیں:چیف جسٹس

چیف جسٹس نے پوچھا کہ  دہشت گردی سے متعلق باتیں بہت اہم ہیں،خیبرپختونخوا میں دہشت گردی سے متعلق رپورٹس سنجیدہ ہیں، کیا یہ سب صدر مملکت کو بتایا گیا؟ وکیل الیکشن کمیشن نے کہا کہ  تمام صورتحال سے متعلقہ حکام کو آگاہ کیا تھا، عدالت کہے گی تو خفیہ رپورٹس بھی دکھادیں گے، بھکر، میانوالی میں مختلف کالعدم تنظیموں کی موجودگی ظاہرکی گئی، الیکشن کے لیے مختلف فورسز کی 4 لاکھ 12 ہزارنفری مانگی گئی، 2 لاکھ 97 ہزار سکیورٹی اہلکاروں کی کمی کا سامنا ہے، الیکشن کمیشن کو فروری میں ہی معلوم تھا کہ6 سے8 ماہ تک انتخابات کرانا ممکن نہیں۔

جسٹس منیب نے کہا کہ الیکشن کمیشن انتخابات کے التوا میں8 فروری کے خطوط پر انحصارکر رہا ہے، عدالت نے یکم مارچ کو اپنا فیصلہ دیا، آپ کو تو فروری میں ہی پتا تھا کہ اکتوبر میں الیکشن کروانا ہے، دوسری طرف الیکشن کمیشن کہتا ہے کہ عدالتی فیصلے سے انحراف کا سوچ بھی نہیں سکتے، اگر اکتوبر میں الیکشن کروانا تھا تو الیکشن کمیشن نے صدر کو 30 اپریل کی تاریخ کیوں تجویزکی؟

اپنا تبصرہ بھیجیں