اسلام آباد ہائی کورٹ نے جمعے کو پی ٹی آئی کے سینیٹر فیصل واوڈا کی نااہلی کیس میں الیکشن کمیشن کو 60 دن میں فیصلہ سنانے کی ہدایت کی ہے۔
سینیٹر فیصل واوڈا نے جمعرات کو اپنے کاغذات نامزدگی میں غلط بیانی کے کیس میں الیکشن کمیشن کی کارروائی کو اسلام آباد ہائی کورٹ میں چیلنج کیا تھا۔
تاہم ان کی درخواست پر اپنے تحریری فیصلے میں اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس اطہر من اللہ نے سماعت رکوانے کی درخواست ناقابل سماعت قرار دے کر خارج کرنے کے ساتھ الیکشن کمیشن کو اس کیس کو 60 دن کے اندر نمٹانے کی ہدایت کر دی۔یاد رہے کہ الیکشن کمیشن میں فیصل واوڈا کے خلاف شہری دوست علی اور دیگر کی درخواستیں زیر سماعت ہیں۔
ان پر الزام ہے کہ انہوں نے اپنے کاغذات میں اپنی امریکی شہریت چھپائی اور جھوٹا حلف نامہ جمع کروانے کے بعد شہریت چھوڑی۔
جمعہ کو جاری تحریری فیصلے میں کہا گیا ہے کہ یہ الیکشن کمیشن پر لازم ہے کہ اس حوالے سے اپنی تحقیقات مکمل کرے اس میں درخواست گزار یا الیکشن کمیشن تاخیر نہیں کر سکتا اس لیے کمیشن کو ہدایت کی جاتی ہے کہ اس معاملے پر تحقیقات جلد از جلد ترجیحی طور پر 60 دن میں مکمل کرے۔عدالت نے مزید قرار دیا کہ یہ آئین کے آرٹیکل 62 اور 63 کے تحت صرف نااہلی کا سادہ کیس نہیں ہے بلکہ اگر کمیشن کی تحقیق میں یہ ثابت ہو جاتا ہے کہ حلف نامہ اور اس کا مواد جھوٹا تھا تو نتائج سنگین ہو سکتے ہیں۔
عدالت نے فیصل واوڈا کو کمیشن کی تحقیقات میں شامل ہونے کی ہدایت کی ورنہ وہ سپریم کورٹ کے فیصلے کی راہ میں رکاوٹ کے مرتکب ہوں گے۔
اپنی درخواست میں فیصل واوڈا نے الیکشن کمیشن کا 12 اکتوبر کا فیصلہ چیلنج کیا تھا۔ ان کا کہنا تھا کہ الیکشن کمیشن کامیابی کے 60 روز میں اہلیت کا فیصلہ کرسکتا ہے، اس لیے الیکشن کمیشن کی کارروائی روک کر میرے خلاف فیصلہ غیر قانونی قرار دیا جائے۔
تاہم دوران سماعت چیف جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیے تھے کہ 60 روز میں فیصل واوڈا کے خلاف درخواست آ چکی تھی، اس لیے اب وہ الیکشن کمیشن میں اپنی بے گناہی ثابت کریں۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ ’اگر آپ کے ہاتھ صاف ہیں تو الیکشن کمیشن کو قانون کے مطابق کارروائی کرنے دیں۔‘انہوں نے فیصل واوڈا کے وکیل سے استفسار کیا کہ آپ کو الیکشن کمیشن کی کارروائی سے کیا ڈر ہے؟
بعد میں اسلام آباد ہائی کورٹ نے اپنا تحریری فیصلہ جاری کیا۔ فیصلے میں کہا گیا کہ سپریم کورٹ نے اپنے 2018 کے ایک فیصلے میں قرار دیا تھا کہ قومی اسمبلی کے تمام امیدوار الیکشن کمیشن میں اپنے کاغذات نامزدگی کے ساتھ شہریت کا حلف نامہ جمع کروائیں گے اور اگر کسی کے حلف نامے میں دروغ گوئی پائی گئی تو وہ سپریم کورٹ کے سامنے دروغ گوئی کے مترادف ہوگی۔
اس فیصلے کے مطابق الیکشن کمیشن کو اختیار ہے کہ وہ جمع کروائے گئے حلف ناموں کی تحقیق کرے کہ ان میں غلط بیانی تو نہیں کی گئی۔ اور اگر کمیشن کو تحقیقات کے دوران معلوم ہوا کہ حلف نامہ میں جھوٹ بولا گیا ہے تو یہ کمیشن کی ذمہ داری ہے کہ وہ اس کے نتائج پر عمل درآمد یقینی بنائے۔
اس کے علاوہ اسلام آباد ہائی کورٹ نے بھی اس سال مارچ میں الیکشن کمیشن کو ہدایت کی تھی کہ جھوٹے حلف نامے کے معاملے کی وہ تحقیق کرے کیونکہ یہ اس کے سامنے جمع کروایا گیا تھا اور اسی کی روشنی میں الیکشن کمیشن مناسب حکم بھی جاری کرے۔