وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات مریم اورنگزیب نے پنجاب میں مسلم لیگ (ن) کے پاس 177 اراکین کے ساتھ اکثریت کا دعویٰ کرتے ہوئے کہا ہے کہ الیکشن کمیشن آف پاکستان (ای سی پی) کے فیصلے سے پنجاب میں اتحادی جماعتوں کی حکومت پر کوئی اثر نہیں پڑے گا۔
مریم اورنگزیب نے الیکشن کمیشن کی جانب سے پنجاب اسمبلی کے 25 اراکین کو ڈی سیٹ کرنے کے فیصلے کے بعد اسلام آباد میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا کہ جو لوگ 4 سال اقتدار پر مسلط رہے، عوام کو دونوں ہاتھوں سے لوٹا اور معیشت کی اینٹ سے اینٹ بجائی، سیاسی مخالفین اور میڈیا کی آواز بندی کرکے جس طرح کی نالائقی اور چوری کا بازار گرم رکھا وہ پاکستان کے عوام کے سامنے ہے۔
انہوں نے کہا کہ الیکشن کمیشن کی جانب سے پنجاب اسمبلی کے جن 25 اراکین کو ڈی سیٹ کرنے کا فیصلہ آیا ہے یہ وہ یہ وہ اراکین تھے جنہوں نے پنجاب میں صوبہ بنانے، ایک کروڑ نوکری، 50 لاکھ گھر دینے اور ملک کے اندر کرپشن ختم کرنے کا وعدہ، ان سب پالیسیوں پر عدم اعتماد کرتے ہوئے قیادت سے انحراف کیا تھا۔
مریم اورنگزیب نے کہا کہ جب الیکشن کمیشن کا فیصلہ آیا تو نالائق ٹولے نے عمران خان کی قیادت میں جھوٹ بولا ہے، یہ الیکشن کمیشن کے باہر ایک ہفتے پہلے کمیشن کو گالی دے رہے تھے۔
ان کا کہنا تھا کہ عمران خان، الیکشن کمیشن پر حملہ کرنے اور الیکشن کمشنر سے استعفیٰ مانگ رہے تھے وہ آج الیکشن کمیشن کو سلام پیش کرتے ہیں اور یہی ان کی حقیقت ہے۔
انہوں نے کہا کہ رات کو جب عدالتیں آئین کو بچانے، آئین پر حملے کو بچانے کے لیے آئین شکن کے خلاف کھلیں تو اس وقت عدالتوں اور ججوں کو دھمکی دو، ان کے اہل خانہ پر الزامات عائد کرو اور ان کے خلاف اپنی پارٹی کے ٹوئٹر ہینڈل سے ایک منظم مہم چلائی گئی اور جب فیصلہ آئے اور دوسری پارٹی کے جواب کا انتظار بھی نہ ہو اور شادیانے بجاؤ اور سلام پیش کرو، یہ اس شخص کی ذہنی کیفیت ہے جس کو پاکستان کے عوام جانتے ہیں۔
وزیر اطلاعات نے کہا کہ جو فیصلہ آیا ہے، اس سے پنجاب میں مسلم لیگ (ن) اور اتحادیوں کی حکومت پر کوئی اثر نہیں پڑے گا، حمزہ شہباز عدم اعتماد کی تحریک کے بعد وزیر اعلیٰ بنے اور ابھی وہ وزیر اعلیٰ ہیں، اس میں کوئی فرق نہیں پڑا۔
ان کا کہنا تھا کہ یہ 25 لوگ ڈی سیٹ ہوتے ہیں تو تب بھی مسلم لیگ (ن) اور اتحادیوں کی تعداد 177 بنتی ہے جبکہ دوسری طرف ان کے پاس 172 لوگ ہیں۔
انہوں نے کہا کہ یہ جھوٹ بول رہے ہیں کہ حکومت ختم ہوگئی کیونکہ اس سے الیکشن، وزیراعلیٰ پنجاب اور حکومت پنجاب پر کوئی اثر نہیں پڑتا۔
وفاقی وزیر نے کہا کہ جو 25 لوگ ڈی سیٹ ہوئے ہیں انہوں نے تو دن دہاڑے پاکستان کے عوام کے سامنے انحراف کیا کیونکہ یہ آٹا، چینی اور بجلی چوروں اور جنہوں نے معیشت اور روزگار تباہ کیا جن کی وجہ سے یہ اپنے حلقوں میں نہیں جاسکتے تھے، اسی لیے دن کی روشنی میں عمران خان کے خلاف ووٹ دیا۔
انہوں نے کہا کہ یہ عدم اعتماد ایک آئینی طریقہ اور اس میں یہ ووٹ دینے کا حق رکھتے ہیں، ان 25 لوگوں کو ان نتائج کا پتا تھا تو یہ انحراف اپنی اس سیاست سے کیا، جس سے ان کے حلقے اور ملک کے عوام غریب اور تقسیم ہیں اس سیاست کے خلاف ووٹ دیا تھا۔
ان کا کہنا تھا کہ آج یہ 25 لوگ ڈی سیٹ نہیں ہوئے بلکہ عمران خان کے منہ پر 25 طمانچے پڑے ہیں، عمران خان اور تحریک انصاف آج ان 25 لوگوں سے محروم ہوگئی ہے۔
مریم اورنگزیب کا کہنا تھا کہ انہوں نے ووٹ پاکستان کے عوام کے لیے دیا ہے اور بارہا کہا کہ فاشسٹ اور جو عوام کو دونوں ہاتھوں سے لوٹیں، ان کے خلاف ووٹ دیا۔
ان کا کہنا تھا کہ یہ 25 لوگ ابھی اس فیصلے کو چیلنج کرنے کا حق رکھتے ہیں، ہر رکن کو پی ٹی آئی کو ووٹ دینے کی ہدایت نہیں ملی تھی، پارٹی کی طرف سے ہدایت نہیں ملی تھی۔
انہوں نے کہا کہ شہباز شریف نے بطور وزیراعلیٰ پنجاب کے عوام کو جو منصوبے دیے اس ٹولے نے اس کا قتل کیا اور جو اصل میں وزیراعلیٰ تھا نہیں بلکہ وہ گونگا اور بہرا تھا اور اس کے اوپر فرح گوگی وزیراعلیٰ تھیں، جنہوں نے عمران خان کی بے نامی ہوتے ہوئے پنجاب کے عوام کو لوٹا۔
ان کا کہنا تھا کہ تمام حقائق پاکستان کے عوام کے سامنے ہے، 25 اراکین نے عدم اعتماد میں عمران خان کے خلاف ووٹ دیا اور ان کی سیاست کو ڈی سیٹ کیا ہے۔
وزیر اطلاعات کا کہنا تھا کہ جب الیکشن میں جائیں گے تو ٹکٹ دینے کے لیے آپ کو لوگ نہیں ملیں گے کیونکہ پاکستان کے عوام آپ کی اصلیت جانتے ہیں، مسلم لیگ (ن) آپ کے بدترین احتساب کے باوجود، میڈیا ٹرائل اور نیب گردی کے باوجود، سزائے موت کی چکیوں کے باوجود، اپنی بیٹیوں کو ہتھکڑیاں لگوا کر جیلوں میں جانے کے باوجودآج سرخرو کھڑی ہے۔
سابق وزیر اعظم عمران خان کو مخاطب کرکے ان کا کہنا تھا کہ آپ کے کرپشن کا ایک الزام بھی ثابت نہیں ہوا اور بدترین احتساب کے باوجود ایک شخص کا نام لیں جو نواز شریف کو چھوڑ کر گیا ہو اور مسلم لیگ (ن) سے انحراف کیا ہو۔
انہوں نے کہا کہ آپ نے پاکستان کو لوٹا جس کی وجہ سے قومی اسمبلی میں آپ کے اتحادی آپ کو چھوڑ کر گئے اور عدم اعتماد کرتے ہوئے آپ کو اسمبلی سے اٹھا کر باہر کردیا، اسی طرح پنجاب میں بھی عدم اعتماد کے ذریعے اٹھا کر باہر پھینکا۔
قبل ازیں الیکشن کمیشن نے پنجاب اسمبلی میں پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے ٹکٹ پر منتخب ہونے والے 25 اراکین کو پاکستان مسلم لیگ (ن) کے حمزہ شہباز کو وزارت اعلیٰ کے لیے ووٹ دینے پر ڈی سیٹ کردیا تھا۔
الیکشن کمیشن نے سپریم کورٹ کی آرٹیکل 63 اے کی تشریح کی روشنی میں فیصلہ اتفاق رائے سے سنایا، تحریک انصاف کے منحرف ارکان پنجاب اسمبلی تاحیات نااہلی سے بچ گئے اور الیکشن کمیشن نے انہیں ڈی سیٹ کردیا۔
منحرف قانون سازوں میں راجا صغیر احمد، ملک غلام رسول سنگھا، سعید اکبر خان، محمد اجمل، عبدالعلیم خان، نذیر احمد چوہان، محمد امین ذوالقرنین، ملک نعمان لنگڑیال، محمد سلمان، زوار حسین وڑائچ، نذیر احمد خان، فدا حسین، زہرہ بتول، محمد طاہر، عائشہ نواز، ساجدہ یوسف، ہارون عمران گِل، عظمیٰ کاردار، ملک اسد علی، اعجاز مسیح، محمد سبطین رضا، محسن عطا خان کھوسہ، میاں خالد محمود، مہر محمد اسلم، فیصل حیات شامل ہیں۔
ان میں سے متعدد اراکین کا تعلق جہانگیر ترین گروپ، علیم خان گروپ اور اسد کھوکھر گروپ سے ہے۔