افغانستان میں لویہ جرگہ نے ملک میں بین الافغان امن مذاکرات کے آغاز کی راہ ہموار کرنے کے لیے ان 400 افغان طالبان قیدیوں کی رہائی کی منظوری دے دی ہے جو سنگین جرائم کے مقدمات میں قید تھے۔
اتوار کو لویہ جرگے کا اختتامی اجلاس کی کارروائی کو افغانستان میں سرکاری اور نجی ٹی وی چینلز پر براہِ راست نشر کیا گیا۔
لویہ جرگے نے آخری دن ایک 25 نکاتی قرارداد کی منظوری دی جس میں امن عمل میں تیزی لانے کے لیے تجاویز بھی دی گئی ہیں۔
جرگے کی سیکریٹری عاطفہ طیب نے کہا کہ ’لویہ جرگہ کے ارکان امن عمل کا خیرمقدم اور اس کی حمایت کرتے ہیں تاکہ ایک پائیدار اور باوقار امن آ سکے جو ملک میں استحکام اور تحفظ لائے گا۔‘
قرارداد کی دوسری شق پڑھتے ہوئے جرگے کی سیکریٹری کا کہنا تھا کہ ’امن مذاکرات کی راہ میں حائل رکاوٹ دور کرنے، خونریزی روکنے اور عوام کے قومی مفاد کی خاطر جرگہ بقیہ چار سو طالبان قیدیوں کی رہائی کی منظوری دیتا ہے۔‘
تین دن جاری رہنے والے لویہ جرگے میں افغانستان کے 34 صوبوں سے تقریباً 3400 افراد نے شرکت کی۔
طالبان پہلے ہی کہہ چکے ہیں کہ بین الافغان بات چیت میں ان کی شرکت صرف اسی صورت میں ممکن ہے کہ جب افغان حکومت ان کے وہ چار سو ساتھی رہا کرتی ہے جن پر قتل اور منشیات فروشی جیسے سنگین الزامات ہیں۔
دوسری جانب پاکستان نے افغان لویہ جرگہ کی جانب سے طالبان قیدیوں کی رہائی کے فیصلے کا خیر مقدم کیا ہے۔
پاکستان کی وزارت خارجہ کی جانب سے جاری کردہ بیان میں کہا گیا ہے کہ پاکستان افغان لویہ جرگہ کی جانب سے افغان طالبان کے باقی ماندہ 400 قیدیوں کی رہائی کی سفارشات کا خیر مقدم کرتا ہے۔ بیان میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ امریکہ طالبان معاہدے کے تحت اس اقدام سے جلد بین الافغان مذاکرات کا آغاز ہو سکے گا۔
پاکستان کی وزارت خارجہ کے بیان کے مطابق پاکستان نے متعدد بار افغان رہنماؤں پر زور دیا ہے کہ اس تاریخ موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے بین الافغان مذاکرات کے ذریعے افغانستان میں جامع، دیرپا اور تمام فریقین کی شراکت کے ساتھ ایک مستحکم سیاسی نظام اور امن کا قیام عمل میں لایا جائے۔
پاکستانی وزارت خارجہ کی جانب سے جاری کردہ بیان میں عالمی برادری سے بھی مطالبہ کیا گیا ہے کہ وہ بین الافغان مذاکرات کی کامیاب کے لیے اپنی حمایت اور مدد فراہم کریں تاکہ افغانستان میں دیرپا امن اور استحکام پیدا ہو۔
پاکستانی وزارت خارجہ کی جانب سے یہ بھی کہا گیا ہے کہ پاکستان ہمیشہ سے افغانستان میں استحکام اور امن کا خواہشمند اور اس ضمن میں مسلسل افغان زیر قیادت مفاہمتی عمل کی حمایت کرتا رہا ہے۔
خیال رہے کہ لویہ جرگے سے اپنے خطاب میں افغانستان کے صدر اشرف غنی نے کہا تھا جرگے کے لیے یہ ’مشکل‘ ہو گا کہ وہ ان 400 طالبان کے مستقبل کا فیصلہ کرے جنھیں سنگین جرائم کی سزا دیتے ہوئے قید کیا گیا ہے۔
افغان صدر نے کہا تھا کہ افغان آئین کے مطابق وہ افراد جن کو سزائے موت دی گئی ہے، ان کی سزا معاف نہیں ہو سکتی البتہ کم کر کے عمر قید میں تبدیل کی جا سکتی ہے۔
’ہم اب بہت اہم اور نازک موڑ پر پہنچ گئے ہیں۔ اس موڑ پر فیصلہ کرنا آسان نہیں ہو گا لیکن ہمارے پاس اب صرف دو ہی راستے رہ گئے ہیں۔ فیصلہ لینے کا وقت آن پہنچا ہے۔ ان طالبان پر سنگین جرائم کے الزامات ہیں۔‘
اشرف غنی نے مزید کہا کہ 29 فروری کو افغان طالبان اور امریکہ کے درمیان جس معاہدے پر دستخط ہوئے تھے اس میں ایسا کہیں نہیں درج تھا کہ وہ کون سے 5000 طالبان ہیں جنھیں افغان حکومت کو رہا کرنا ہے۔
لویا جرگہ سے اپنے خطاب میں ہائی کونسل برائے نیشنل ریکونسیلی ایشن کے سربراہ عبداللہ عبداللہ نے کہا تھا کہ جرگے کا فیصلہ افغان عوام کے لیے بہت اہم ہے اور افغان طالبان کو تنبیہ کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ وہ جنگ مسلط کر کے جیت نہیں سکتے۔
‘ان کو لگتا ہے کہ وہ جنگ کر کے جیت جائیں گے، لیکن یہ ان کی غلط فہمی ہے۔ گذشتہ 40 برسوں میں افغانستان میں ہونے والی جنگیں یہ ثابت کرتی ہیں کہ وہ نہیں جیت سکتے۔’
لویا جرگہ کا انعقاد کرنے کے فیصلے کا دفاع کرتے ہوئے عبداللہ عبداللہ نے کہا:
‘ہم عوام کے مشورے اور تجاویز لینے کے پابند ہیں اور اس جرگے کے فیصلہ کی قدر کرتے ہیں۔ افغانستان اس وقت تاریخ کے انتہائی نازک موڑ پر کھڑا ہے اور یہ فیصلہ افغان عوام کے لیے زندگی یا موت کا فیصلہ ہے۔’
خیال رہے کہ امریکہ اور طالبان کے مابین ہونے والے مذاکرات کے نتیجے میں قطر کے دارالخلافہ دوحا میں جس معاہدے پر دستخط کیے گئے تھے اس کے مطابق افغان حکومت کو 5000 طالبان رہا کرنے تھے جس کے عوض طالبان 1000 افغان فوجی اہلکاروں کو رہا کرتے اور اس کے بعد افغان طالبان اور حکومت مذاکرات کے لیے ساتھ بیٹھیں گے۔
حال ہی میں دیے گئے بیان میں افغان طالبان کے ترجمان سہیل شاہین کے مطابق اب تک افغان طالبان نے کابل انتظامیہ کے 898 اہلکاروں کو رہا کیا ہے جبکہ افغان حکومت کی جانب سے اب تک 4170 افغان طالبان قیدی رہائی پا چکے ہیں۔
انھوں نے کہا کہ اگر باقی قیدیوں کو رہا کر دیا جاتا ہے تو بین الافغان مذاکرات جلد شروع ہو سکتے ہیں۔
اس سے پہلے سہیل شاہین نے ایک پیغام میں کہا تھا کہ قیدیوں کی رہائی کا عمل مکمل ہو جائے پھر عید کے بعد بین الافغان مذاکرات شروع کیے جا سکتے ہیں۔
گذشتہ ماہ دیے گئے ایک بیان میں افغان طالبان نے امریکہ سے کہا کہ وہ افغان حکومت پر تمام قیدیوں کو رہا کرنے کے لیے دباؤ ڈالے اور دوسری صورت میں تنبیہ کی ہے کہ اگر ایسا نہ ہوا تو بین الافغان مذاکرات شروع نہیں کیے جائیں گے۔
یہ تنبیہ افغان طالبان کی جانب سے ایک ایسے وقت پر جاری کی گئی ہے جب افغان حکومت کی جانب سے یہ بیان سامنے آیا ہے کہ افغان طالبان کے 600 قیدیوں کو ان پر دائر مقدمات کی نوعیت کی وجہ سے رہا نہیں کیا جا سکتا۔