پاکستان چین، ایران اور روس پر مشتمل گروپ نے افغانستان میں طالبان حکومت پر زور دیا ہے کہ وہ اپنی سرزمین سے دہشت گرد گروہوں کے خاتمے کے لیے واضح کارروائی کرے۔
اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی (یو این جی اے) کے موقع پر ہونے والے وزارتی سطح کے اجلاس کے بعد گروپ کی جانب سے جاری ہونے والے مشترکہ بیان میں افغانستان میں موجود متعدد دہشت گرد تنظیموں کی نشاندہی کی گئی ہے، جس میں داعش، القاعدہ، مشرقی ترکستان اسلامی تحریک، جیش العدل، بلوچستان لبریشن آرمی (بی ایل اے) اور کالعدم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) شامل ہیں، بیان میں کہا گیا ہے کہ یہ تنظیمیں علاقائی اور عالمی سلامتی کے لیے سنگین خطرہ ہیں۔
طالبان قیادت پر زور دیا گیا کہ وہ تمام دہشت گرد گروہوں کو ختم کریں اور افغان سرزمین ہمسایہ ممالک پر حملوں کے لیے استعمال ہونے سے روکیں۔
چار ممالک پر مشتمل اس گروپ نے ان تنظیموں کی جانب سے درپیش سیکیورٹی چیلنجز پر گہری تشویش کا اظہار کرتے ہوئے خبردار کیا کہ ان کی سرگرمیوں سے نہ صرف افغانستان کے ہمسایہ ممالک بلکہ خطے کو بھی خطرہ ہے۔
وزیر دفاع خواجہ آصف نے اپنے خطاب میں افغانستان کی عبوری حکومت پر زور دیا کہ وہ اپنی سرزمین کو سرحد پار حملوں کے لیے استعمال ہونے سے روکیں، انہوں نے کہا کہ ہم نے افغان عبوری حکومت پر اس بات کو یقینی بنانے پر زور دیا کہ ان کی سرزمین پاکستان کے خلاف حملوں کے لیے استعمال نہ ہو، یہ نہ صرف دوطرفہ بلکہ علاقائی تشویش کا معاملہ بھی ہے۔
تاہم انہوں نے سیکیورٹی خطرات سے جامع طور پر نمٹنے کے لیے مستقل بین الاقوامی روابط کی اہمیت پر بھی زور دیا۔
وزرائے خارجہ نے افغانستان میں صورتحال کو مستحکم کرنے اور اس کے وسیع تر چیلنجوں سے نمٹنے کے لیے چاروں ممالک کے درمیان مسلسل تعاون کی ضرورت پر بھی روشنی ڈالی۔
یہ چار ممالک پر مشتمل گروپ کا تیسرا وزارتی سطح کا اجلاس تھا، جو افغانستان میں طالبان کے اقتدار میں آنے کے بعد درپیش مسائل سے نمٹنے کے لیے تشکیل دیا گیا ہے، اگست 2021 میں طالبان کے دوبارہ کنٹرول کے بعد سے خیبر پختونخوا اور بلوچستان کی سرحد پر عسکریت پسندوں کی سرگرمی میں اضافہ ہوا ہے، پاکستان انسٹی ٹیوٹ فار پیس اسٹڈیز کے مطابق صرف اگست میں ان علاقوں میں 59 حملے ریکارڈ کیے گئے جو جولائی میں ہونے والے 38 حملوں کے مقابلے میں نمایاں اضافہ ہے۔
اجلاس میں پاکستان کے وزیر دفاع کے علاوہ چین، ایران اور روس کے وزرائے خارجہ نے بھی کالعدم تحریک طالبان پاکستان اور دیگر کالعدم تنظیموں کی جانب سے بڑھتے ہوئے حملوں پر تشویش کا اظہار کیا، اسلام آباد نے بارہا کابل پر زور دیا ہے کہ وہ ان گروہوں کے خلاف کارروائی کرے جن کے بارے میں پاکستان کا دعویٰ ہے کہ وہ اپنی سرزمین پر حملوں کے لیے افغان سرزمین کو اڈے کے طور پر استعمال کر رہے ہیں۔
انہوں نے خطے میں حالیہ دہشت گرد حملوں کی بھی مذمت کی جن میں 13 ستمبر کو کربلا کے زائرین پر داعش کے حملے اور پاکستانی علاقوں بنوں اور بشام میں کالعدم ٹی ٹی پی کے حملے شامل ہیں۔
مشترکہ اعلامیے میں دہشت گردی کا مقابلہ کرنے کے لیے مشترکہ کاوشوں پر زور دیتے ہوئے کہا گیا ہے کہ ہر قسم کے دہشت گرد حملے ناقابل قبول ہیں اور خطے سے دہشت گردی کے خاتمے کے لیے مربوط حکمت عملی کی اشد ضرورت ہے۔
دہشت گردی کے علاوہ اس گروپ نے افغانستان کی خودمختاری، اتحاد اور علاقائی سالمیت کی حمایت کرنے کے عزم کا اعادہ کیا، وزرائے خارجہ نے زور دیتے ہوئے کہا کہ مستحکم اور پرامن افغانستان میں بین الاقوامی برادری کے تمام ارکان کے مشترکہ مفادات شامل ہیں۔
گروپ نے افغانستان کے طویل مدتی امن کے لئے اپنے عزم کا اعادہ کرتے ہوئے اعلان کیا کہ دہشت گردی کی علامات اور بنیادی وجوہات کو حل کرنے کے لیے جامع اقدامات کرنے میں افغانستان کی حمایت کرنی چاہئے تاکہ ملک دہشت گردی اور انتہا پسندی کے لیے محفوظ پناہ گاہ نہ بن سکے، گروپ نے اس بات کو یقینی بنانے کا بھی عزم کیا کہ افغانستان کو جغرافیائی سیاست کا میدان نہ بنایا جائے بلکہ ملک کو مستحکم کرنے کے لیے مشترکہ کوششیں کی جائیں۔
سب سے اہم انسانی مسائل میں سے ایک افغان پناہ گزینوں کی واپسی ہے، طالبان کے قبضے کے بعد سے ہمسایہ ممالک بالخصوص پاکستان اور ایران میں افغان مہاجرین کی بڑی تعداد موجود ہے، اقوام متحدہ کے اعداد و شمار کے مطابق گزشتہ برس شروع ہونے والی مہم کے تحت اب تک 5 لاکھ سے زائد غیر قانونی رہائش پذیر افغانیوں کو پاکستان سے وطن واپس جا چکے ہیں۔
مشترکہ بیان میں افغانستان کی عبوری حکومت پر زور دیا گیا ہے کہ وہ افغان مہاجرین کی محفوظ واپسی کے لیے سازگار حالات پیدا کرے اور واپس آنے والے مہاجرین کو سیاسی اور سماجی عمل میں ضم کرے تاکہ دیرپا حل نکالا جا سکے۔
چار ممالک پر مشتمل اس گروپ نے بین الاقوامی برادری پر بھی زور دیا کہ وہ افغانستان اور افغان پناہ گزینوں کی میزبانی کرنے والے ممالک کو متوقع اور پائیدار مالی امداد فراہم کرے، بیان میں پناہ گزینوں کی محفوظ واپسی کو آسان بنانے کے لیے بروقت اور وسائل سے بھرپور وطن واپسی کے پروگراموں کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے کہا گیا ہے کہ بین الاقوامی برادری کو اپنی ذمہ داری نبھانی چاہیے