ہفتے کے روز ہونے والے گردوارے پر حملے کے بعد افغانستان کی سکھ برادری اپنے مستقبل کے حوالے سے مایوسی کا شکار ہے جب کہ اپنے پیدائشی ملک کی شہریت سے دستبردار ہو کر وہاں سے کسی دوسرے ملک منتقل ہونے کے بارے میں سوچ رہی ہے۔
غیر ملکی خبر رساں ادارے ‘اے ایف پی’ کی خبر کے مطابق ہفتے کے روز مندر پر ہونے والے حملے میں زخمی ہونے والے رگبیر سنگھ نے مایوسی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ یہاں ملک میں ہمارے لیے کوئی مستقبل نہیں ہے، میں تمام امیدیں کھو چکا ہوں۔
ہفتے کے روز مندر پر ہونے والے حملے کی ذمہ داری اسلامک اسٹیٹ گروپ نے قبول کی تھی۔
‘ہم ہر جگہ خطرات میں گھرے ہیں’
اگست میں طالبان کے اقتدار پر قبضے کے بعد سے بہت سے سکھوں نے حملے کا نشانہ بننے والے کمپلیکس میں پناہ لی تھی جو ایک برادری یا خاندان کی صورت میں عمارت کے ارد گرد رہتے تھے۔
سکھ برادری طالبان کے اقتدار میں آنے سے پہلے بھی نشانہ بنتی رہی ہے۔
مارچ 2020 میں بھی کابل کے ایک مندر میں ہونےوالے مسلح حملے میں کم از کم 25 افراد مارے گئے تھے اور 2018 میں مشرقی شہر جلال آباد میں ایک خود کش دھماکے میں کم از کم 19 افراد مارے گئے جن میں سے زیادہ تر سکھ تھے۔
دونوں حملوں کی ذمہ داری آئی ایس نے قبول کی تھی جو کہ افغانستان کی اقلیتی برادریوں کو نشانہ بناتی ہے، اس کے حملوں میں شیعہ اور صوفیا کو ماننے والے فرقوں اور گروہوں کو بھی باقاعدگی سے نشانہ بنایا جاتا ہے۔
افغانستان میں رہنے والے سکھوں اور ہندوؤں کی تعداد گزشتہ سال کے آخر تک کم ہو کر تقریباً 200 رہ گئی تھی جب کہ 1970 کی دہائی میں یہ تعداد تقریباً 5 لاکھ تھی۔
سکھ برادری سے تعلق رکھنے والے جو لوگ افغانستان میں باقی رہ گئے ہیں ان میں سے زیادہ تر وہ تاجر ہیں جو جڑی بوٹیوں کی ادویات، بھارت اور پاکستان سے لائی گئی الیکٹرانک اشیا فروخت کرنے کا کاروبار کرتے تھے۔
افغانستان میں پیدا ہونے والے منموہن سنگھ سیٹھی کے لیے حملے کا نشانہ بنایا گیا مندر صرف ایک عبادت گاہ نہیں بلکہ سکھ برادری کا گھر تھا۔
فیملی کے طور پر ملاقات کی جگہ
تقریباً 70 سالہ منموہن سنگھ سیٹھی نے کہا یہ مرکزی گوردوارہ تھا جہاں ہم سب ایک خاندان کے طور پر ملاقاتیں کرتے تھے۔
لیکن ہفتہ کے روز امن و سکون کو برباد کر دیا گیا جب صبح سویرے ہونے والے حملے میں سکھ کمیونٹی سے تعلق رکھنے والا ایک شخص ہلاک اور منموہن سنگھ سیٹھی سمیت 7 دیگر افراد زخمی ہو گئے تھے۔
اس حملے کے فوری بعد شروع کی گئی جوابی کارروائی میں ایک طالبان جنگجو بھی مارا گیا تھا۔
حملے میں زندہ بچ جانے والے افراد نے واقعے کی تفصیلات بتاتے ہوئے کہا کہ اسلحہ برداروں نے پہلے کمپلیکس کے مرکزی دروازے پر فائرنگ کرکے ایک گارڈ کو ہلاک کیا، اس کے بعد گردوارے کے اندر گھس کر فائرنگ کی اور دستی بم پھینکے۔
اس حملے کے چند منٹ بعد کمپلیکس کے باہر ایک کار بم دھماکا ہوا جس سے قریب میں واقع عمارتوں کی دیواریں اور کھڑکیاں ٹوٹ گئیں۔
جب گردوارے پر حملہ شروع ہوا تو کچھ لوگ پچھلے دروازے سے بچ نکلنے میں کامیاب ہو گئے اور انہوں نے قریبی عمارتوں میں پناہ لی، اس افراتفری، بھاگ دوڑ کے دوران منموہن سنگھ سیٹھی جو کمپلیکس کی چوتھی منزل پرموجود تھے، زمین پر گرگئے جس سے ان کی ٹانگوں اور ایک ہاتھ پر زخم آئے۔
حملے سے کمپلیکس کے کمروں اور عبادت کے لیے مختص مرکزی ہال کو گولیوں، دستی بموں اور حملے کے دوران عمارت کے ایک حصے میں لگنے والی آگ سے بھاری نقصان پہنچا ہے۔
گردوارے پر یہ حملہ ایسے وقت میں ہوا جب کہ نئی دہلی کے وفد نے بھارتی سفارت خانے کو دوبارہ کھولنے کے امکانات پر بات چیت کے لیے کابل کا دورہ کیا۔
بھارتی حکومت کے ذرائع نے دہلی میں اے ایف پی سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ 100 کے قریب افغان ہندوؤں اور سکھوں کو ہنگامی بنیادوں پر ویزے جاری کیے گئے ہیں لیکن منموہن سنگھ سیٹھی کا کہنا تھا کہ ہماری خوفزدہ برادری میں سے کسی کو بھی اس بھارتی پیشکش کا علم نہیں ہے۔
انہوں نے کہا کہ کمیونٹی کو ابھی تک یہ بھی نہیں پتا کہ وہ مستقبل میں کہاں عبادت کریں گے۔
انہوں نے مزید کہا کہ اگر ہم سب ایک مخصوص جگہ پر مذہبی رسومات ادا کرنے کے لیے جمع ہوتے ہیں تو ہمیں اس طرح کے ایک اور حملے کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے جب کہ ہم پر پہلے ہی 3 مرتبہ حملہ کیا جا چکا ہے ، ہم غفلت کا مظاہرہ نہیں کر سکتے۔
منموہن سنگھ سیٹھی کا کہنا تھا کہ تازہ ترین حملے نے ہمیں بہت بڑے پیمانے پر متاثر کیا ہے، افغانستان میرا وطن ہے، میں کبھی اس کو چھوڑنا نہیں چاہتا تھا لیکن اب میں اس کو چھوڑ رہا ہوں۔