افغانستان: کالعدم ٹی ٹی پی سے پشتون جرگے کے مذاکرات کا ایک اور دور مکمل

افغانستان کے دارالحکومت کابل میں12 رکنی پاکستان کے پشتون جرگے نے کالعدم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کے رہنماؤں کے ساتھ مذاکرات کا ایک اور دور مکمل کرلیا۔

مذاکرات میں قبائلی علاقوں کے خیبر پختونخوا میں انضمام اور گروپ کے اراکین کی واپسی کے طریقہ کار سے متعلق معاملات حل کرنے پر تبادلہ خیال کیا گیا۔

قبائلی عمائدین کی قیادت کرنے والے بیرسٹر محمد علی سیف نے مذاکرات میں ڈیڈلاک کا تاثر مسترد کرتے ڈان ڈاٹ کام کو بتایا کہ تین روزہ مذاکرات سازگار ماحول میں ہوئے، دونوں فریقین کی جانب سے ایک دوسرے کے تحفظات پر بات چیت کی گئی۔

ان کا کہنا تھا کہ مذاکرات ناکام نہیں ہوئے بلکہ جاری ہیں، ان کی کامیابی یا ناکامی کا اندازہ اسی وقت لگایا جا سکتا ہے جب یہ اختتام تک پہنچیں گے۔

انہوں نے وضاحت پیش کی کہ مذاکرات اس وقت ناکام ہوں گے جب دونوں میں سے کوئی ایک فریق اس عمل کو ختم کرنے کا فیصلہ کرے۔

انہوں نے کہا کہ لیکن ایسا نہیں ہے، ہم نے ٹی ٹی پی اور امارت اسلامیہ کے عہدیداروں کے ساتھ بات چیت کی ہے۔

بیرسٹر محمد علی سیف نے بتایا کہ مذاکرات اچھے طریقے سے چل رہے ہیں تاہم انہوں نے اجلاس کے حوالے سے تفصیلات فراہم نہیں کیں۔

کالعدم ٹی ٹی پی کی جانب سے سابق فاٹا کے اسٹیٹس کو بحال کرنے کے مطالبے پر ان کا کہنا تھا کہ اس حوالے سے دونوں فریقین کی جانب سے تحفظات کا اظہار کیا گیا ہے جس سے حل کرنے کی کوشش کی جار ہی ہے۔

اس سے قبل پاکستانی وفد کالعدم تحریک طالبان پاکستان کے رہنماؤں سے مذاکرات کے دوسرے دور کے لیے 30 جولائی کو کابل روانہ ہوا تھا، بات چیت کا پہلا دور جون کی پہلی اور دوسری تاریخ کو منعقد ہوا تھا۔

بیرسٹر محمد علی سیف نے بتایا تھا کہ ٹی ٹی پی نے قبائلی علاقوں کی سابقہ حیثیت کی بحالی کا مطالبہ دہرایا ہے۔

قبل ازیں، ٹی ٹی پی نے کہا تھا کہ وہ سابق فاٹا کا خیبر پختونخوا میں انضمام تسلیم نہیں کرتے، فاٹا کو مئی 2018 میں آئینی ترمیم کے ذریعے صوبے میں ضم کیا گیا تھا۔

کالعدم تحریک طالبان پاکستان نے عید الفطر سے قبل غیر معینہ مدت تک کے لیے جنگ بندی کا اعلان کیا تھا، اس کے باوجود پاکستان کی سیکیورٹی فورسز پر تواتر کے ساتھ خاص طور پر وزیرستان کے اضلاع میں حملے ہو رہے ہیںِ، اس دوران افغانستان کی طرف سے بھی سیکیورٹی فورسز پر حملوں میں اضافہ ہوا ہے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں