افغانستان میں بچیوں کو مفت تعلیم دینے والے سماجی کارکن کو طالبان نے حراست میں لے لیا ہے۔
خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق افغانستان میں اقوام متحدہ کے مشن نے ٹویٹ میں تصدیق کی کہ ’پین پاتھ‘ کے سربراہ اور بچیوں کی تعلیم کے حمایتی مطیع اللہ ویسا کو پیر کے روز کابل سے گرفتار کیا گیا ہے۔
افغانستان دنیا کا واحد ملک ہے جہاں حکومت نے لڑکیوں کی تعلیم پر پابندی عائد کر رکھی ہے۔
سماجی کارکن مطیع اللہ ویسا کے بھائی سمیع اللہ نے تصدیق کرتے ہوئے بتایا کہ پیر کی شام مسجد کے باہر سے انہیں اٹھایا گیا تھا۔
سمیع اللہ نے بتایا ’مطیع اللہ نماز ختم کر کے مسجد سے باہر نکلے تھے کہ دو گاڑیوں میں سوار افراد نے انہیں روکا۔‘
’مطیع اللہ نے جب شناخت ظاہر کرنے کا کہا تو انہیں مارا پیٹا اور زبردستی ساتھ لے گئے۔‘
مطیع اللہ ویسا کی تنظیم ’پین پاتھ‘ دیہی علاقوں میں کتابیں تقسیم کرتی ہے اور گاؤں کے بزرگوں سے بات چیت کر کے انہیں بچیوں کی تعلیم کی اہمیت سے آگاہ کرتی ہے۔
طالبان کی جانب سے بچیوں کے سیکنڈری سکول بند ہونے کے بعد مطیع اللہ ویسا دور دراز علاقوں میں جا کر تعلیم کی بحالی کی مہم چلاتے رہے ہیں۔
گزشتہ ہفتے مطیع اللہ ویسا نے ٹویٹ میں کہا تھا ’ہم لڑکیوں کے سکول کھلنے میں گھنٹے، منٹ اور سیکنڈ گن رہے ہیں۔ سکولوں کی بندش سے ناقابل تردید اور ناقابل تلافی نقصان ہوا ہے۔‘
’ہم نے مقامی افراد سے ملاقاتیں کی ہیں اور اگر سکول بند رہے تو ہم اپنا احتجاج جاری رکھیں گے۔‘
لڑکیوں کے سیکنڈری سکول بند کرنے کے بعد طالبان نے یونیورسٹی کی تعلیم پر بھی پابندی عائد کر دی تھی۔
عالمی تنظیموں اور دیگر ممالک کی جانب سے تنقید کے جواب میں طالبان نے یقین دہانی کروائی تھی کہ حالات سازگار ہونے کے بعد تعلیمی ادارے بحال کر دیے جائیں گے۔
طالبان کا کہنا ہے کہ فنڈز کی کمی اور نصاب کو اسلامی تعلیمات کے مطابق نہ کرنے کی وجہ سے سکول اور یونیورسٹیاں تاحال بند ہیں۔