سابق وزیر اعظم اور پاکستان مسلم لیگ (ن) کے سینئر نائب صدر شاہد خاقان عباسی نے کہا ہے کہ اسمبلیاں تحلیل کرنا موجودہ معاشی بحران کا حل نہیں ہے۔
قومی احتساب بیورو (نیب) اسلام آباد کے دفتر کے باہر میڈیا نمائندگان کی طرف سے معاشی بحران پر پوچھے گئے سوال کا جواب دیتے ہوئے سابق وزیر اعظم نے تمام سیاسی جماعتوں پر زور دیا کہ حکومت کے ساتھ بیٹھ کر معاشی بحران کا حل اخذ کریں جبکہ حکومت معاملات پر قابو پانے کے لیے سخت محنت کر رہی ہے۔
انہوں نے کہا کہ موجودہ صورتحال اس وقت تک بہتر نہیں ہو سکتی جب تک تمام سیاسی جماعتیں ایک میز پر بیٹھ کر گفتگو نہیں کرتیں۔
سابق وزیر اعظم کا یہ بیان اس وقت سامنے آیا ہے جب روپے کی قدر میں بڑی کمی آئی ہے اور اسٹاک مارکیٹ کو ایندھن پر سبسڈی کو برقرار رکھنے کے حکومتی فیصلے کی وجہ سے گراوٹ کا سامنا ہے، جس کا سابق حکومت نے آغاز کیا تھا۔
عین اسی وقت سابق وزیر اعظم عمران خان مسلسل اس بات کو دہرا رہے ہیں کہ نئے اتنخابات ہی معاشی بحران کا واحد حل ہیں۔
شاہد خاقان عباسی نے دعویٰ کیا کہ موجودہ معاشی تباہی چار برس پہلے شروع ہوئی جب پاکستان تحریک انصاف کی حکومت اقتدار میں آئی۔
انہوں نے عمران خان کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ آج پاکستان میں معاشی بدحالی کا ذمہ دار واحد شخص عمران خان ہے اور آپ حکومت سے یہ توقع نہیں کر سکتے کہ جو چیزیں آپ نے تباہ کیں وہ موجودہ حکومت فی الفور ٹھیک کردے۔
پی ٹی آئی کے حامیوں کا حوالہ دیتے ہوئے شاہد خاقان عباسی نے کہا کہ ’سچے محب وطن‘ ملک کی بھلائی کے بارے میں سوچیں گے اور ’معیشت کی بہتری کے لیے فیصلے لینے میں فعال کردار ادا کریں گے‘۔
مسلم لیگ (ن) کے رہنما نے کہا کہ حکومتی فیصلوں کو اداروں اور عوام کی حمایت کی ضرورت ہے کیونکہ پاکستان کی بہتری سب کی ذمہ داری ہے۔
انہوں نے ملک میں غیر آئینی فیصلوں کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ ہمارے ملک میں سیاسی معاملات میں ہمیشہ غیر آئینی مداخلت رہی ہے اور ہم جہاں آج کھڑے ہیں وہ سب اس مداخلت کا نتیجہ ہے۔
سابق وزیر اعظم نے ان خیالات کا اظہار مائع قدرتی گیس (ایل این جی) کی درآمد کے معاہدے سے متعلق ان کے خلاف اربوں روپے کے کیس کی سماعت کے بعد کیا۔
نیب کے حوالے سے انہوں نے مطالبہ کیا کہ نیب کو ’فوری طور پر تحلیل‘ کیا جائے کیونکہ جب تک یہ موجود ہے پاکستان کام نہیں کر سکے گا۔
معاشی غیر یقینی
قبل ازیں انٹربینک میں امریکی ڈالر روپے کے مقابلے میں تاریخ کی بلند ترین سطح 196 روپے کو بھی عبور کر گیا، جس کی بنیادی وجہ غیر ملکی زرمبادلہ کے کم ہوتے ذخائر اور زیادہ درآمدات ہیں۔
فاریکس ایسوسی ایشن آف پاکستان (ایف اے پی) کے مطابق ڈالر گزشتہ روز 194 روپے 60 پیسے پر بند ہوا تھا، اس کی قدر میں 11 بجکر 20 منٹ کے قریب ایک روپے 50 پیسے کا اضافہ ہوا جس کے بعد ڈالر 196 روپے 10 پیسے کی سطح پر پہنچ گیا۔
غیر ملکی کرنسی کی قدر میں اضافہ گزشہ ہفتے منگل سے شروع ہوا جب ڈالر کی قدر انٹربینک مارکیٹ میں 188 روپے 66 پیسے کی ہونے کے بعد بدھ کو بڑھ کر 190 روپے 90 پیسے کی ہو گئی، جمعرات کو ڈالر کی قدر 192 روپے، جمعہ کو 193 روپے 10 پیسے جبکہ گزشتہ روز (پیر) کو ڈالر کی قدر بڑھ کر 194 روپے ہو گئی۔
ایک رپورٹ میں بتایا گیا کہ جب پاکستان مسلم لیگ (ن) کی قیادت میں اتحادی حکومت نے 11 اپریل کو اقتدار سنبھالا تو اس وقت ڈالر کی قدر 182.2 روپے تھی اور اس وقت سے روپے کی قدر میں 11.4 روپے یا 6.2 فیصد کی کمی آئی ہے۔
کرنسی ڈیلرز کے مطابق ڈالر کی طلب میں کبھی کمی نہیں آئی جس نے مقامی کرنسی کو ایک جگہ رکنے نہیں دیا۔
ان کا کہنا ہے کہ ڈالر کی زیادہ طلب کرنسی مارکیٹ میں تیزی کے رجحان کی اہم وجہ ہے، موجودہ حکومت کی طرف سے ایندھن اور بجلی پر سبسڈی واپس لینے کے فیصلے سے پیچھے ہٹنا، جو بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) کی طرف سے قرض کے پروگرام کو دوبارہ شروع کرنے کی شرط ہے، اسٹیک ہولڈرز کے اعتماد کو مزید ختم کردیا ہے۔
زرمبادلہ کے ذخائر میں کمی اور روپے کی شدید بے قدری پر وزیر اعظم شہباز شریف نے منصوبہ سازوں کو کہا ہے کہ وہ اسٹیک ہولڈرز کی مشاورت سے جامع حکمت عملی تشکیل دیں، تاکہ روپے کی تیزی سے گرتی قدر کو روکا اور زرمبادلہ ذخائر کو بہتر کیا جاسکے۔
ایکسچینج کمپنیز ایسوسی ایشن آف پاکستان (ای سی اے پی) کے چیئرمین ملک بوستان کے ساتھ زوم اجلاس کی صدارت کرتے ہوئے وزیراعظم نے موجودہ صورتحال پر اپنے تحفظات کا اظہار کیا۔
اجلاس کے دوران تجویز دی گئی کہ سورج ڈھلنے سے قبل ملک بھر کی تمام مارکیٹیں بند کردی جائیں جس سے توانائی کی خاطر خواہ بچت ہوگی، درآمدی تیل کا بل کم ہوگا اور عام لوگوں کو سپلائی بحال ہو سکے گی۔
رپورٹ کے مطابق وزیر اعظم، ملک بوستان اور اسٹیٹ بینک کے گورنر کے ساتھ آج پھر شرح تبادلہ پر ملاقات کریں گے۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ حکومت کی طرف سے چار دنوں میں اس معاملے پر ہونے والی یہ تیسری ملاقات ہوگی اور یہ اسلام آباد کے مقتدر حلقوں میں بڑھتی ہوئی مایوسی کی عکاسی کرتی ہے۔