اسلام آباد ہائیکورٹ نے وزیراعظم کو حنیف عباسی کے بطور معاون خصوصی تقرر پر نظر ثانی کا حکم دے دیا۔
حنیف عباسی کو وزیراعظم کا معاون خصوصی بنانے کے خلاف سابق وفاقی وزیر داخلہ اور عوامی مسلم لیگ کے سربراہ شیخ رشید احمد کی درخواست پر اسلام آباد ہائی کورٹ میں چیف جسٹس جسٹس اطہر من اللہ نے کیس کی سماعت کی۔
سماعت کے آغاز پر شیخ رشید کے وکیل سجیل شہریار سواتی نے عدالت کو بتایا کہ ایک سزا یافتہ مجرم کو وزیراعظم کا معاون خصوصی بنایا گیا ہے۔
چیف جسٹس نے وکیل سے استفسار کیا کہ کیا حنیف عباسی کی سزا معطل ہوئی ہے؟ اور کیا سزا کی معطلی کے بعد کیس کی کوئی سماعت نہیں ہوئی۔
وکیل نے عدالت کو بتایا کہ جی سزا معطل ہوئی ہے، اس کے باوجود حنیف عباسی کو معاون خصوصی بنا دیا گیا جبکہ سزا معطلی کے بعد چار سال سے ابھی تک کیس کی سماعت بھی نہیں ہوئی۔
چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ جسٹس اطہر من اللہ نے عدالت میں موجود شیخ رشید سے استفسار کیا کہ شاید لوگوں کو یقین نہیں ہے کہ عدالتیں سب کے لیے ہیں، جلسوں میں کہا جا رہا ہے کہ عدالتیں رات 12 بجے کیوں کھولی گئیں اور عدالتیں آزاد نہیں ہیں۔
جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیے کہ آپ کے وکلا نے یقیناً آپ کو بتایا ہو گا کہ رولز کے مطابق چیف جسٹس کسی بھی وقت کیس کی سماعت کرسکتے ہیں، 2014 میں رات کو 11 بجے پی ٹی آئی ورکر جو حراست میں تھے ان کو رہا کرنے کا حکم دیا گیا تھا۔
چیف جسٹس نے اسلام آباد ہائیکورٹ نے مزید کہا کہ شاید پی ٹی آئی کو عدالتوں پر اعتماد نہیں ہے، سائل کا عدالت پر اعتماد ہونا بہت ضروری ہے، اگر تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان کا عدالتوں پر اعتماد نہیں ہے تو بطور چیف جسٹس میں معذرت کر کے کسی اور عدالت میں کیس بھیج دیتا ہوں، آپ کل تک سوچ کر جواب دیجیے گا۔
جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ اور بھی عدالتیں اور جج موجود ہیں، عدالتوں کا دل سے احترام ہونا چائیے اور انصاف دکھائی دینا چاہیے اس ملک کے بڑے کیسز اس عدالت میں زیر سماعت ہیں۔
اس موقع پر شیخ رشید نے عدالت کو بتایا کہ میں یہاں اس لیے پیش ہوا ہو کہ مجھے اس عدالت پر اعتماد ہے، میں عمران خان سے بھی بات کروں گا، انہوں نے مزید کہا کہ 16 دفعہ وزیر بنا ہوں اور سوچ سمجھ کر اس عدالت میں پیش ہوا ہوں۔
بعد ازاں اسلام آباد ہائی کورٹ نے فریقین کو نوٹسز جاری کرتے ہوئے وزیراعظم شہباز شریف کو حکم دیا کہ حنیف عباسی کے بطور معاون خصوصی تقرر پر نظر ثانی کی جائے اور کیس کی سماعت 17 مئی تک کے لیے ملتوی کر دی گئی۔
کیس کا پس منظر
واضح رہے کہ عوامی مسلم لیگ (اے ایم ایل) کے سربراہ اور سابق وزیر داخلہ شیخ رشید احمد نے (ن) لیگ کے رہنما حنیف عباسی کی بطور وزیراعظم کے معاون خصوصی تعیناتی کو اسلام آباد ہائی کورٹ میں چیلنج کیا تھا۔
شیخ رشید نے وکیل سجیل شہریار سواتی کے توسط سے دائر کی گئی درخواست میں وفاق کو کابینہ سیکریٹری کے ذریعے اور (ن) لیگ کے رہنما کو فریق بنایا تھا۔
یہ پیش رفت ایسے وقت میں سامنے آئی تھی جب نئے تعینات ہونے والے وزیراعظم کے معاون خصوصی حنیف عباسی نے شیخ رشید کی وِگ ان کے سر سے اتار کر لانے والے کو 50 ہزار روپے انعام دینے کا اعلان کیا تھا جبکہ لیگی رہنما کے اس بیان پر پیپلز پارٹی کے سیکریٹری جنرل فرحت اللہ بابر نے تشویش کا اظہار بھی کیا تھا۔
درخواست میں شیخ رشید کی جانب سے مؤقف اپنایا گیا تھا کہ حنیف عباسی کو 27 اپریل کو ایک نوٹی فکیشن کے ذریعے وزیراعظم کا معاون خصوصی مقرر کیا گیا جبکہ نوٹی فکیشن اور ان کا تقرر دونوں غیر قانونی، غیر آئینی، اچھی طرز حکمرانی اور قانون کی بالادستی کے اصولوں کی خلاف ورزی ہیں۔
عوامی مسلم لیگ کے سربراہ نے مؤقف اپنایا کہ 21 جولائی 2012 کو حنیف عباسی کے خلاف راولپنڈی میں منشیات کنٹرول ایکٹ 1997 کے سیکشن 9 سی، 14 اور 15 کے تحت ایف آئی آر درج کی گئی تھی۔
حنیف عباسی کے خلاف درج کی گئی مذکورہ ایف آئی آر کے مبینہ حقائق کے مطابق حنیف عباسی نے دیگر لوگوں کے ہمراہ اپنی فرم گرے فارماسیوٹیکل کے لیے 500 کلوگرام ایفی ڈرین حاصل کی اور اس کے بعد انہوں نے طبی مقاصد کے لیے ایفی ڈرین استعمال کرنے کے بجائے اسے منشیات کے اسمگلروں کو فروخت کرکے غیر قانونی طور پر فائدہ اٹھایا۔
درخواست گزار نے یہ بھی کہا تھا کہ حنیف عباسی کو ٹرائل کورٹ نے 2018 میں عمر قید کی سزا سنائی تھی جبکہ حنیف عباسی نے بعد میں اس سزا کو لاہور ہائی کورٹ میں چیلنج کیا اور سزا کی معطلی اور ضمانت کے لیے الگ درخواست بھی دائر کی۔
درخواست میں مؤقف اپنایا گیا تھا کہ 11 اپریل 2019 کو لاہور ہائی کورٹ نے حنیف عباسی کی سزا صرف معطل کی تھی، ختم نہیں کی۔
شیخ رشید نے درخواست میں دلیل دیتے ہوئے کہا تھا کہ معاون خصوصی کا عہدہ ایک باوقار منصب ہے جبکہ ایک سزا یافتہ شخص کا، خاص طور پر وہ شخص جو منشیات جیسے غیر اخلاقی کاروبار کے لیے سزا یافتہ ہو اس کا ایسے عہدے پر فائز ہونا کسی طور پر بھی موزوں اور مناسب نہیں۔
سابق وزیر نے اپنی درخواست میں یہ بھی مؤقف اپنایا تھا کہ لاہور ہائی کورٹ نے حنیف عباسی کی صرف سزا کو معطل کیا تھا جس کا مطلب ہے کہ فرد جرم ابھی ان پر عائد ہے جبکہ وزیر اعظم شہباز شریف نے اپنے اختیارات کا غلط استعمال کرتے ہوئے ان کی تعیناتی کرکے قانون کی حکمرانی اور آئین کا مذاق اڑایا۔
شیخ رشید نے اپنی درخواست میں عدالت سے اپیل کی تھی کہ مدعا علیہان کو ہدایت دی جائیں کہ وہ بتائیں کہ حنیف عباسی کو کس قانون کے تحت وزیر اعظم کا معاون خصوصی تعینات کیا گیا۔
یاد رہے کہ ایفی ڈرین کیس مارچ 2011 میں اس وقت سامنے آیا تھا جب اس وقت کے وفاقی وزیر مخدوم شہاب الدین نے قومی اسمبلی کو بتایا تھا کہ حکومت، دو فارماسیوٹیکل کمپنیوں برلیکس لیب انٹرنیشنل اور ڈاناس فارماسیوٹیکل لمیٹڈ کو 9 ہزار کلوگرام ایفی ڈرین کے مبینہ طور پر مختص کوٹے کی تحقیقات کرے گی۔
قواعد کے مطابق کسی کمپنی کو 500 کلوگرام سے زیادہ منشیات کا پروڈکشن کوٹہ مختص نہیں کیا جا سکتا، یہ حد انٹرنیشنل نارکوٹکس کنٹرول بورڈ (آئی این سی بی) نے مقرر کی ہے۔
اس معاملے پر اینٹی نارکوٹکس فورس (اے این ایف) نے جون 2012 میں حنیف عباسی سمیت 9 ملزمان کے خلاف مقدمہ درج کیا تھا۔
2018 میں حنیف عباسی منشیات کے اسمگلروں کو 500 کلوگرام ایفی ڈرین فروخت کرنے کے مجرم پائے گئے تھے۔
مسلم لیگ (ن) کے رہنما نے اپنی فرم یعنی گرے فارماسیوٹیکل کے لیے 500 کلوگرام ایفی ڈرین حاصل کی تھی اور اسے بعد میں انہوں نے طبی مقاصد کے لیے استعمال کرنے کے بجائے منشیات کے اسمگلروں کو فروخت کردیا تھا۔
لیگی رہنما پر عمر قید کے ساتھ 10 لاکھ روپے جرمانہ بھی عائد کیا گیا، اس کیس میں دیگر افراد کو بری کر دیا گیا۔
راولپنڈی کی سی این ایس عدالت نے 25 جولائی 2018 کے عام انتخابات سے کچھ روز قبل حنیف عباسی کو عمر قید کی سزا سنائی تھی۔
اس کے بعد حنیف عباسی نے لاہور ہائی کورٹ کے راولپنڈی بینچ میں اپنی سزا کے خلاف اپیل دائر کی تھی۔
راولپنڈی بینچ کے دو ججز نے ایفی ڈرین کیس میں لیگی رہنما کی اپیل کی سماعت سے خود کو الگ کر لیا تھا جبکہ کیس لاہور ہائی کورٹ کے لاہور بینچ کو منتقل کردیا گیا تھا۔
اپریل 2019 میں لاہور ہائی کورٹ نے حنیف عباسی کو سنائی گئی عمر قید کی سزا معطل کر دی تھی اور انہیں ضمانت پر رہا کرنے کا حکم دیا تھا۔
جسٹس عالیہ نیلم کی سربراہی میں دو رکنی بینچ نے حنیف عباسی کی سزا معطل کرنے کی درخواست منظور کرلی تھی جبکہ کیس کی سماعت جاری رکھنے کا فیصلہ کیا گیا تھا۔