اسلام آباد ہائی کورٹ نے سابق گورنر پنجاب عمر سرفراز چیمہ کی برطرفی کالعدم قرار دینے کی درخواست رجسٹرار آفس کے اعتراضات کے ساتھ سماعت کے لیے مقرر کردی۔
اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس اطہر من اللہ سابق گورنر پنجاب عمر سرفراز چیمہ کی درخواست پر اعتراض کے ساتھ سماعت کریں گے۔اس سے قبل پنجاب کے سابق گورنر عمر سرفراز چیمہ نے اسلام آباد کی عدالت عالیہ میں اپنی برطرفی کا نوٹیفکیشن کالعدم قرار دینے کی استدعا کی تھی۔
درخواست میں مؤقف اختیار کیا گیا کہ سابق گورنر پنجاب عمر سرفراز چیمہ کو عہدے سے ہٹانا غیر قانونی ہے، پنجاب میں ایک شخص جو اختیارات استعمال کر رہا ہے وہ غیر قانونی ہے۔
درخواست میں الزام عائد کیا گیا کہ وزیر اعظم شہباز شریف نے اپنے بیٹے کو فائدہ دینے کے لیے گورنر پنجاب کو غیر قانونی طور پر عہدے سے ہٹایا۔
اپنی درخواست میں عمر سرفراز چیمہ نے کابینہ ڈویژن سے نوٹی فکیشن جاری کروانے والوں کے خلاف بھی کارروائی کرنے کی استدعا کی۔
درخواست میں استدعا کی گئی کہ عمر سرفراز چیمہ کی گورنر پنجاب کے عہدے سے برطرفی کا حکم کالعدم قرار دیا جائے۔
درخواست گزار کا کہنا تھا کہ آئین کے مطابق گورنر صوبے میں وفاق کا نمائندہ ہے، وہ ایگزیکٹو کا حصہ نہیں ہوتا اور صدر کی خوشنودی پر گورنر عہدے پر قائم رہ سکتا ہے۔
درخواست گزار کا مزید کہنا تھا کہ نوٹی فکیشن بلااختیار اور ماورائے آئین ہے، سپریم کورٹ کے فیصلوں کے مطابق صدر کے اختیارات کو رولز کے تحت ختم نہیں کیا جاسکتا۔
درخواست گزار نے مؤقف اختیار کیا کہ پنجاب میں آئینی بحران پیدا کردیا گیا ہے۔
درخواست پر اعتراض عائد
تاہم عمر سرفراز چیمہ کی بطور گورنر عہدے سے برطرفی کے خلاف درخواست پر اسسٹنٹ رجسٹرار اسد خان نے اعتراض عائد کردیا۔
رجسٹرار آفس کا اعتراض تھا کہ یہ معاملہ پنجاب کا ہے لہٰذا درخواست پر اس عدالت کا دائرہ کار نہیں بنتا۔
رجسٹرار آفس نے کہا کہ درخواست میں بنائے گئے فریقین کے خلاف درخواست قابل سماعت نہیں ہے۔
پس منظر
خیال رہے کہ 9 مئی کو رات گئے وزیر اعظم کے مشورے پر وفاقی حکومت نے گورنر پنجاب عمر سرفراز چیمہ کو عہدے سے برطرف کردیا تھا۔
قبل ازیں صدر کی جانب سے گورنر پنجاب کو عہدے سے ہٹانے سے متعلق تجویز مسترد کردی گئی تھی۔
اپنے نوٹ میں وزیر اعظم کے مشورے کو مسترد کرتے ہوئے صدر نے لکھا تھا کہ موجودہ گورنر کو نہیں ہٹایا جاسکتا کیونکہ ان پر بدانتظامی کا کوئی الزام ہے نہ ہی کسی عدالت کی طرف سے انہیں سزا دی گئی ہے اور نہ ہی ان کی طرف سے آئین کے منافی کسی کام کا ارتکاب کیا گیا ہے۔
وفاقی حکومت کے نوٹی فکیشن میں یہ بھی بتایا گیا تھا کہ پنجاب اسمبلی کے اسپیکر آئین کے آرٹیکل 104 کے مطابق گورنر کے تقرر تک قائم مقام گورنر کے فرائض سرانجام دیں گے۔
جیسے جیسے پی ٹی آئی کے مقرر کردہ گورنر کی برطرفی میں ہر گزرتے دن کے ساتھ تاخیر ہوتی جارہی تھی، پنجاب میں مسلم لیگ (ن) کی زیر قیادت مخلوط حکومت میں ہلچل بڑھ رہی تھی، کیونکہ انہیں صوبائی کابینہ کی تشکیل میں ناکامی کا سامنا ہے۔