سابق ڈپٹی اسپیکر قومی اسمبلی قاسم سوری اور ان کے ساتھیوں پر اسلام آباد کی کوہسار مارکیٹ میں سحری کے دوران نامعلوم افراد کے مبینہ حملے کا مقدمہ درج کرلیا گیا۔
سوشل میڈیا پر گردش کرنے والی ویڈیوز میں دیکھا جاسکتا ہے کہ واقعے کے وقت پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے سینیٹر اعجاز چوہدری بھی ریسٹورنٹ میں موجود تھے۔
ایک ویڈیو میں دیکھا گیا کہ اعجاز چوہدری، قاسم سوری کے ساتھ بیٹھے ہیں اور وہ اس وقت اپنی نشست سے اٹھتے ہیں جب نامعلوم افراد کا ایک گروہ ’پی ٹی آئی مردہ آباد‘ کے نعرے لگاتے ہوئے ریسٹورنٹ میں داخل ہوتا ہے، جس کے بعد نامعلوم افراد اعجاز چوہدری اور قاسم سوری پر حملہ کرتے ہوئے نظر آتے ہیں۔
سابق ڈپٹی اسپیکر نے معاملے کی تفصیلات لکھ کر کوہسار پولیس اسٹیشن کے ایس ایچ او کو کارروائی کرنے کے لیے درخواست دیتے ہوئے انصاف کا مطالبہ کیا۔
میڈیاکو موصول ان کے ہاتھ سے تحریر کردہ درخواست میں قاسم سوری نے لکھا ہے کہ ’وہ سحری کے وقت کوہسار مارکیٹ کے ایک ریسٹورنٹ میں بیٹھے ہوئے تھے، عدیل مرزا اور خالد بھٹی میرے نزدیک ٹیبل پر بیٹھے تھے جبکہ ڈاکٹر عارف اور خواتین ایک اور ٹیبل پر بیٹھے تھیں۔‘
انہوں نے لکھا ہے کہ 15 سے 20 لوگوں کا ایک گروہ وہاں پہنچا اور پی ٹی آئی کے خلاف نعرے لگانا شروع کردیے۔ انہوں نے الزام عائد کیا کہ لوگوں کے اس گروہ نے ان کو اور ساتھیوں کو ڈنڈوں سے تشدد کا نشانہ بنایا اور دعویٰ کیا کہ ان کا مقصد ’مجھے قتل کرنا تھا‘۔
سابق ڈپٹی اسپیکر قومی اسمبلی نے کہا کہ وہ لوگ مسلسل یہ دھمکیاں دے رہے تھے کہ کوئی بھی ریسٹورنٹ سے زندہ واپس نہیں جائے گا اور انہوں نے لوگوں میں خوف پھیلایا۔
قاسم سوری کے مطابق واقعے کے دوران ان کے ایک ساتھی ڈاکٹر عارف کو دائیں آنکھ میں چوٹ لگی ہے جبکہ خالد بھٹی کو بھی دائیں آنکھ اور ٹانگ پر چوٹ لگی۔
انہوں نے کہا کہ اس کے بعد وہاں موجود دیگر افراد نے مداخلت کی جس کے بعد حملہ آور دو سفید ڈبل کیبن اور ایک کالی وی ایٹ میں سوار ہو کر چلے گئے۔
ان کا کہنا تھا کہ ان کے ساتھ بہت ناانصافی ہوئی ہے اور قانونی کارروائی کے ذریعے انہیں انصاف فراہم کیا جانا چاہیے۔
انہوں نے مزید کہا کہ اگر ان حملہ آوروں کو سامنے لایا جائے تو ان کے دوست عدیل مرزا اور خالد بھٹی ان کی شناخت کر لیں گے۔
سابق ڈپٹی اسپیکر نے جمعہ کی صبح ٹوئٹر پر واقعے میں ملوث افراد کو ’(ن) لیگ کے ٹھگز‘ قرار دیا۔
اسلام آباد کے ایس ایس پی آپریشنز فیصل کامران نے یقین دہانی کرائی تھی کہ سابق ڈپٹی اسپیکر کی درخواست موصول ہونے کے بعد واقعے کی ایف آئی آر درج کی جائے گی۔
بعد ازاں قاسم سوری کی درخواست پر تعزیرات پاکستان کی دفعات 148، 149 اور 506 کے تحت مقدمہ درج کرلیا گیا، تاہم ایف آئی آر میں کسی شخص کو نامزد نہیں کیا گیا ہے۔
میڈیا کو حاصل ایف آئی آر کی کاپی میں قاسم سوری کی لکھی گئی شکایت کے مندرجات کو دہراتے ہوئے کہا گیا ہے کہ اے ایس آئی افتخار احمد واقعے کی اطلاع ملنے پر پولی کلینک ہسپتال پہنچے تھے جہاں انہوں نے ڈاکٹر عارف عزیز اور خالد بھٹی کو ایمرجنسی وارڈ میں زیر علاج پایا۔
ایف آئی ار میں مزید لکھا گیا ہے کہ قاسم سوری نے اپنی درخواست ہسپتال میں پولیس کو جمع کروائی تھی جو بعد میں مقدمے کے لیے کوہسار تھانے بھیجی گئی تھی۔
دوسری جانب ایس ایس پی فیصل کامران نے یقینی دہانی کرواتے ہوئے کہا کہ حملے میں ملوث افراد کے خلاف قانونی کارروائی کی جائے گی اور ان کا سیف سٹی پراجیکٹ کے تحت لگائے گئے کیمروں اور ریسٹورنٹ کی سی سی ٹی وی فوٹیج کی مدد سے سراغ لگایا جائے گا۔
انہوں نے کہا کہ ملزمان کو جلد گرفتار کرلیا جائے گا۔
اعجاز چوہدری کی طرف سے ٹوئٹر شیئر کی گئی ایک ویڈیو میں سوری نے ایک بار پھر واقعے کی تفصیلات کا ذکر کیا اور کہا کہ موجودہ حکومت کا خیال ہے کہ وہ ’ہوٹلوں میں جاکر غنڈہ گردی کر سکتے ہیں، لوگوں کے ساتھ ایسا سلوک کر سکتے ہیں لیکن لوگوں کے ردعمل کے بعد انہیں بھاگنا پڑا‘۔
انہوں نے مزید کہا کہ ’یقین کریں کہ حملہ کرنے کیے لیے آئے لوگوں کو ہوٹل میں بیٹھے لوگوں اور ویٹرز نے کرسیوں، پانی کی بوتلوں سے خوب جواب دیا، حملے کے لیے آنے والے کتے شیر کا شکار نہ کر سکے اور بے عزت ہوکر وہاں سے چلے گئے‘۔
ان کا کہنا تھا کہ ‘کرپٹ‘ اور ’امپورٹڈ‘ حکومت کے دن گنے جاچکے ہیں جو کہ ’امریکا کی غلام ہے‘ جبکہ وہ مجھے کوئی نقصان نہیں پہنچا سکتے۔
اعجاز چوہدری نے الزام لگایا کہ حملہ آور جمہوری وطن پارٹی کے سربراہ شاہزین بگٹی کے ’غنڈے‘ تھے، جو پچھلی حکومت میں اس وقت کی اپوزیشن میں جانے سے قبل سابق وزیر اعظم عمران خان کے مشیر رہ چکے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ ’ہم شاہزین بگٹی کے غنڈوں کی طرف سے قاسم سوری پر کیے جانے والے حملے کی پرزور مذمت کرتے ہیں، ان کا کام بس غنڈہ گردی کرنا ہے‘۔
پی ٹی آئی رہنما نے الزام لگایا کہ جو کچھ ان کے ساتھ مدینہ میں ہوا ہے اس کا غصہ معصوم لوگوں پر نکال رہے ہیں، مسجد نبوی ﷺ میں لوگوں نے موجودہ وزرا کے خلاف ان کی موجودگی میں نعرے لگائے تھے۔