اسرائیل میں تین برسوں کے دوران پانچویں مرتبہ انتخابات کی راہ ہموار ہوگئی جہاں قانون ساز پارلیمان تحلیل کرنے کے لیے ووٹ دیں گے جبکہ نیفتالی بینیٹ کی جگہ یائر لیپڈ نئے وزیراعظم ہوں گے۔
رپورٹ کے مطابق اسرائیلی وزیراعظم نیفتالی بینیٹ اپنے منصب سے استعفیٰ دیں گے، جن کے شراکت دار اس اتحاد کو حصہ ہیں جنہوں نے ایک سال قبل سابق وزیراعظم بینجمن نیتن یاہو کی ریکارڈ 12 سالہ حکمرانی کا خاتمہ کردیا تھا۔نامزد نئے وزیراعظم یائرلیپڈ سابق صحافی اور اتحاد میں شامل سب سے بڑی جماعت کے سربراہ ہیں اور وہ نئے انتخابات تک قائم مقام وزیراعظم کے طور پر فرائض نبھائیں گے۔
سرکاری عہدیدار کا کہنا تھا کہ اسرائیلی پارلیمنٹ میں اگلے ہفتے ووٹنگ ہوگی جس کے بعد یائر لیپڈ وزارت عظمیٰ سنبھال لیں گے۔
اتحادی جماعت کے سربراہ اور وزیردفاع بینی گینٹز کا کہنا تھا کہ ‘میرے خیال میں حکومت نے گزشتہ ایک برس میں بہت اچھا کام کیا ہے، یہ شرم ناک ہے کہ ملک انتخابات میں چلا جائے گا’۔
انہوں نے کہا کہ ‘ہم جہاں تک ممکن ہو ایک عارضی حکومت کے طور پر اپنا کام کرتے رہیں گے’۔
اسرائیل میں حکومت کی تبدیلی ایک ایسے موقع پر ہو رہی ہے جب امریکی صدر جوبائیڈن چند ہفتوں بعد دورہ کرنے والے ہیں، جس کا مقصد اسرائیل کے بدترین مخالف ملک ایران کے خلاف خطے میں سلامتی کے تعلقات کو بہتر کرنا ہے۔
سخت گیر دائیں بازو، لبرل اور عرب جماعتوں پر مشتمل 8 جماعتی اتحاد کے اکثر اہم اراکین کی جانب سے اتحاد چھوڑنے کا خطرہ بڑھ رہا تھا، جس کے نتیجے میں حکومت کے پاس اکثریت نہیں رہ جاتی۔
اسرائیلی حکومت پر حالیہ دنوں میں جیسے ہی دباؤ بڑھ رہا تھا تو 2013 میں سیاست میں آنے والے اسپیشل فورسز کے سابق کمانڈو اور ارب پتی وزیراعظم نیفتالی بینیٹ نے کہا تھا کہ حکومت نے معاشی نمو بہتر کیا، بے روزگاری کم کی اور 14 برسوں میں پہلی مرتبہ خسارہ کم کیا۔
اپنے دعووں کے باوجود اسرائیلی وزیراعظم اتحاد برقرار رکھنے میں ناکام ہوئے اور نیتن یاہو کی جماعت کی جانب سے پارلیمان تحلیل کرنے کے لیے تحریک لانے سے پہلے مستعفی ہونے کا فیصلہ کیا۔
کرپشن کے الزامات پر ٹرائل کا سامنا کرنے والے بینجمن نیتن یاہو کا اس بات پر زور ہے کہ وہ دوبارہ حکومت بنائیں گے اور نیفتالی بینیٹ کو تنقید کا نشانہ بناتے رہے ہیں۔
انہوں نے اپنے سابق قریبی اتحادی کو مخاطب کرتے ہوئے کہا تھا کہ ان کی حکومت تاریخ میں بدترین ثابت ہورہی ہے۔