حزب اختلاف کے اتحاد پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ (پی ٹی ایم) کی جانب سے سینیٹ انتخابات میں شرکت اور لانگ مارچ فروری کے بجائے بعد میں کرنے کے عندیے سے سیاسی حلقوں میں یہ تاثر پیدا ہو رہا ہے کہ اپوزیشن کی حکومت ہٹانے کی تحریک شاید اپنے نتائج کے حصول میں ناکام ہو گئی ہے۔
یکم جنوری کو لاہور میں ہونے والے پی ڈی ایم کے سربراہی اجلاس میں یہ اعلان سامنے نہیں آیا کہ لانگ مارچ موخر ہو گیا ہے بلکہ اتحاد کے سربراہ مولانا فضل الرحمان نے یہ کہا کہ حکومت کے پاس مستعفی ہونے کے لیے ایک ماہ کا وقت ہے جس کے بعد لانگ مارچ ہو گا۔
انہوں نے کہا کہ ابھی یہ فیصلہ ہونا ہے کہ مارچ اسلام آباد کی طرف ہو گا یا راولپنڈی کی طرف۔ یہاں تک بھی کہا گیا کہ مہم جوئی کے تحت میڈیا پر پی ڈی ایم میں اختلافات کی خبریں چلوائی جاتی ہیں۔
پی ڈی ایم میں شامل جماعتوں کے رہنما آہستہ آہستہ اب یہ تسلیم کرتے نظر آرہے ہیں کہ فروری میں مارچ کا کوئی امکان نہیں ہے اور یہ کہ سینیٹ انتخابات سے قبل استعفے دیے جانے کا کوئی امکان نہیں کیونکہ پاکستان پیپلز پارٹی نے اس تجویز سے اتفاق نہیں کیا تھا۔
اپوزیشن اتحاد کی اہم جماعت مسلم لیگ ن کی نائب صدر مریم نواز نے چند دن قبل یہ کہا کہ لانگ مارچ کی تاریخ کا اعلان لوگوں کی سہولت اور موسم کو دیکھتے ہوئے کریں گے۔
انہی کی جماعت کے رہنما رانا ثناء اللہ نے منگل کو نجی ٹی وی پر یہ انکشاف بھی کیا کہ فیصلہ ہوا ہے کہ پہلے ضمنی اور سینیٹ الیکشنز ہوں گے، پھر لانگ مارچ ہو گا۔
ان کا کہنا تھا ایسا نہیں ہے کہ آنکھیں بند کر کے دریا میں چھلانگ لگا دیں۔
تو کیا اپوزیشن استعفوں سے انکار اور لانگ مارچ موخر کر کے اپنی تحریک کی ناکامی کا اعلان کر رہی ہے؟
سیاسی تحریکیں ناکام کبھی نہیں ہوتیں‘
سینیئر سیاسی تجزیہ کار سہیل وڑائچ کا کہنا ہے کہ یہ درست ہے کہ اپوزیشن کا حکومت ہٹانے کا مقصد حاصل نہیں ہوا تاہم سیاسی تحریکیں مکمل ناکام کبھی نہیں ہوتیں کیونکہ وہ اپنے اثرات چھوڑ جاتی ہیں۔ اس تحریک نے بھی یقیناً سیاسی منظر نامے پر اثرات چھوڑے ہیں۔
وہ کہتے ہیں کہ ’ابھی ہم کہہ سکتے ہیں کہ اپوزیشن تحریک کا پہلا مرحلہ ختم ہو گیا ہے اور اب دوسرا مرحلہ شروع ہو گا۔ جو مقاصد پی ڈی ایم کی جانب سے گذشتہ سال ہونے والی آل پارٹیز کانفرنس میں پیش کیے گئے تھے ظاہر ہے وہ حاصل نہیں ہوئے۔‘
ان کا کہنا تھا کہ اپوزیشن اب بھی چُپ نہیں بیٹھے گی بلکہ دوبارہ تحریک شروع کرے گی جو احتجاج کا دوسرا مرحلہ ہو گا۔
پی ڈی ایم کی تحریک ماضی کی کامیاب تحریکوں سے کیسے مختلف ہے؟
قائداعظم یونیورسٹی میں شعبہ تاریخ کے ایسوسی ایٹ پروفیسر الحان نیاز کا کہنا ہے کہ ماضی میں پاکستان میں اپوزیشن کی دو سیاسی تحریکیں کامیاب ہوئی ہیں۔
’ایک ساٹھ کے عشرے کے آخر میں صدر ایوب کے خلاف اپوزیشن تحریک جو ان کے استعفے پر منتج ہوئی اور دوسری سابق وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو کے خلاف پاکستان نیشنل الائنس ( پی این اے ) کی تحریک جو ان کی حکومت کے خاتمے کا باعث بنی۔ان دونوں تحریکوں کی کامیابی کی وجہ ان کی شدت، عوامی شمولیت اور قیادت کی مستقل مزاجی تھی۔‘
پروفیسر الحان کا کہنا تھا کہ پی ڈی ایم کے پاس اتنی صلاحیت اور عوامی حمایت ضرور ہے کہ وہ ایک لمبے عرصے تک حکومت کے خلاف تحریک جاری رکھ سکے۔
تاہم ان کا کہنا تھا کہ یہ تحریک حکومت گرانے اور وزیراعظم عمران خان کے استعفے جیسے مقاصد کو حاصل کرتی ہوئی نظر نہیں آتی کیونکہ ان کے پاس اتنی سٹریٹ پاور نظر نہیں آتی کہ وہ یہ مقاصد حاصل کر سکیں۔
’اس کے علاوہ اپوزیشن کی جماعتوں کے اندر اختلاف رائے کی وجہ سے بھی وہ کسی متفقہ حکمت عملی پر متفق نہیں ہو پا رہے۔‘
پروفیسر الحان کے مطابق اگر اپوزیشن اتحاد میں شامل گیارہ جماعتیں یہ چاہتی ہیں کہ حکومت گر جائے تو ان کو پی این اے یا ایوب مخالف تحریک کی طرح موثر ہونا پڑے گا تاکہ اسٹیبلشمنٹ یا تو حکومت کی حمایت چھوڑ دے یا پھر اسے ماضی کی طرح اقتدار سے الگ کر دے۔
تاہم ان کا کہنا تھا کہ ایسی تحریک میں بہت خون خرابہ ہو گا اور اپوزیشن کی قیادت کو بھی متحد ہو کر بہت قربانیاں دینا پڑیں گی۔
پروفیسر الحان کا کہنا ہے کہ پی ڈی ایم تحریک اتنی پذیرائی اس لیے حاصل نہیں کر پا رہی کہ اپوزیشن کو تحریک چلانے کے لیے ایسی قیادت چاہیے ہوتی ہے جو عوام کو تبدیلی اور بہتر حالات کی امید دلائے جو امید کا ایک استعارہ ہو۔ ان کے خیال میں ایسی قیادت پی ڈی ایم کو فی الحال میسر نہیں ہے۔