آرٹیکل 63 اے کی تشریح کا صدارتی ریفرنس: سپریم کورٹ نے لارجر بینچ تشکیل دے دیا

سپریم کورٹ آف پاکستان نے آئین کے آرٹیکل 63 ‘اے’ کی تشریح کے لیے دائر صدارتی ریفرنس پر سماعت کے لیے 5رکنی لارجر بینچ تشکیل دے دیا۔

صدارتی ریفرنس پر سماعت 24 مارچ کو ہوگی جس میں تمام سیاسی جماعتیں وکلا کے ذریعے پیش ہوسکتی ہیں۔

وزیراعظم عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد پیش کیے جانے کے بعد حکومتی اراکین کی جانب سے وفاداری بدلنے پر ممکنہ نااہلی کے لیے سپریم کورٹ میں آئین کی دفعہ 63 اے کی تشریح کے لیے ریفرنس دائر کیا گیا ہے جس میں 4 سوالات اٹھائے گئے ہیں۔

اس ضمن میں ایوانِ صدر سے جاری بیان کے مطابق صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی نے آئین کے آرٹیکل 186 کے تحت سپریم کورٹ میں ریفرنس دائر کرنے کی منظوری دی۔صدر مملکت نے وزیرِ اعظم کے مشورے پر آئین کے آرٹیکل 63 اے کے اغراض و مقاصد، اس کی وسعت اور دیگر متعلقہ امور پر سپریم کورٹ کی رائے مانگی ہے۔

بیان میں کہا گیا کہ ریفرنس کچھ اراکین پارلیمنٹ کے انحراف کی خبروں، ملک کے موجودہ حالات کے پیش نظر دائر کیا گیا ہے۔

ریفرنس میں سپریم کورٹ کے سامنے مندرجہ ذیل سوالات اٹھائے گئے ہیں:

  • آئین کی روح کو مدِ نظر رکھتے ہوئے انحراف کی لعنت کو روکنے اور انتخابی عمل کی شفافیت، جمہوری احتساب کے لیے آرٹیکل 63 اے کی کون سی تشریح قابل قبول ہوگی:

i) ایسی تشریح جو انحراف کی صورت میں مقررہ طریقہ کار کے مطابق رکن کو ڈی سیٹ کرنے کے سوا کسی پیشگی کارروائی مثلاً کسی قسم کی پابندی یا نئے سرے سے الیکشن لڑنے سے روکنے کی اجازت نہیں دیتی۔

ii) وہ مضبوط بامعنی تشریح جو اس طرح کے آئینی طور پر ممنوع عمل میں ملوث رکن کو تاحیات نااہل کر کے منحرف ووٹ کے اثرات کو بے اثر کر کے اس طرزِ عمل کو جڑ سے اکھاڑ پھینکے۔

  • کیا ایک رکن جو آئینی طور پر ممنوع اور اخلاقی طور پر قابل مذمت حرکت میں ملوث ہو اس کا ووٹ شمار کیا جائے گا یا اس طرح کے ووٹوں کو خارج کیا جاسکتا ہے؟
  • کیا وہ رکن جو اپنے ضمیر کی آواز سن کر اسمبلی کی نشست سے مستعفی نہیں ہوتا اور انحراف کا مرتکب ہو جسے ایماندار، نیک اور سمجھدار نہیں سمجھا جاسکتا وہ تاحیات نااہل ہوگا؟
  • موجودہ آئینی اور قانونی ڈھانچے میں فلور کراسنگ، ووٹوں کی خرید و فروخت روکنے کے لیے کون سے اقدامات اٹھائے جاسکتے ہیں۔

ریفرنس دائر کرنے کے لیے سپریم کورٹ آمد پر میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے اٹارنی جنرل نے بتایا کہ ریفرنس میں صدر کی نمائندگی وہ خود کریں گے۔

اٹارنی جنرل نے کہا کہ ریفرنس میں بنیادی طور پر آئین کی دفعہ 63 اے پر عدالتی رائے مانگی گئی ہے اور منحرف ارکان کی نااہلی کی مدت سے متعلق سوال کیا گیا ہے۔

انہوں بتایا کہ عدالت سے رائے مانگی گئی ہے کہ منحرف رکن کی مدت موجودہ مدت کے لیے ہے یا تاحیات؟ اور کیا منحرف رکن کا ووٹ گنتی میں شامل ہو گا یا نہیں؟

خیال رہے کہ حکومت کی جانب سے آرٹیکل 63 اے کی تشریح کے لیے ریفرنس دائر کرنے کا فیصلہ ایسے وقت میں سامنے آیا کہ جب پی ٹی آئی کے متعدد قانون سازوں کے سندھ ہاؤس اسلام آباد میں چھپے ہونے کا انکشاف ہوا جبکہ اس پیش رفت سے اشارہ ملا کہ اپوزیشن کی اتحادی جماعتوں کا تحریک عدم اعتماد میں کامیابی حاصل کرنے کا دعویٰ درست ہے۔

وزیراعظم عمران خان اور کابینہ کے چند ورزا نے الزام عائد کیا تھا کہ اپوزیشن تحریک اعتماد کی کامیابی کےلیے ووٹنگ پر ہارس ٹریڈنگ کر رہی ہے، انہوں نے انکشاف کیا تھا کہ دارالحکومت میں واقع سندھ ہاؤس میں اراکین کی خرید و فروخت کی جارہی ہے۔

حکومت کے متعدد اراکین مسلسل دعویٰ کررہے ہیں کہ ان مخالفین نے ‘اپنا ضمیر پیسوں کے لیے فروخت کیا ہے’، البتہ درجنوں اراکین جن کا عمران خان کی حکومت سے اختلاف پیدا ہوچکا ہے ان کا کہنا تھا کہ وہ اپنی مرضی کے مطابق ووٹ دینے جارہے ہیں۔

ٹیلی ویژن فوٹیجز میں پی ٹی آئی کے اراکین قومی اسمبلی کو دکھایا گیا، جن میں چند خواتین قانون ساز بھی شامل ہیں، جن کو وسیع و عریض سندھ ہاؤس میں بیٹھے ہوئے دیکھا گیا، جو چیف جسٹس آف پاکستان کی سرکاری رہائش گاہ کے بالکل سامنے واقع ہے۔

آرٹیکل 63 اے

آئین کے آرٹیکل 63 اے کے مطابق کسی رکن پارلیمنٹ کو انحراف کی بنیاد پر نااہل قرار دیا جا سکتا ہے۔

اگر پارلیمنٹیرین وزیر اعظم یا وزیر اعلیٰ کے انتخابات کے لیے اپنی پارلیمانی پارٹی کی طرف سے جاری کردہ کسی بھی ہدایت کے خلاف ووٹ دیتا ہے یا عدم اعتماد کا ووٹ دینے سے باز رہتا ہے تو اس سے نااہل قرار دیا جاسکتا ہے۔

آرٹیکل میں کہا گیا ہے کہ اس سلسلے میں پارٹی سربراہ کو تحریری طور پر اعلان کرنا ہوگا کہ متعلقہ رکن اسمبلی منحرف ہوگیا ہے لیکن اعلان کرنے سے قبل پارٹی سربراہ ‘منحرف رکن کو وضاحت دینے کا موقع فراہم کرے گا’۔

اراکین کو ان کی وجوہات بیان کرنے کا موقع دینے کے بعد پارٹی سربراہ اعلامیہ اسپیکر کو بھیجے گا اور وہ اعلامیہ چیف الیکشن کمشنر کو بھیجے گا۔

بعدازاں چیف الیکشن کمیشن کے پاس اعلان کی تصدیق کے لیے 30 دن ہوں گے۔

آرٹیکل کے مطابق اگر چیف الیکشن کمشنر کی طرف سے تصدیق ہو جاتی ہے، تو مذکورہ رکن ‘ایوان کا حصہ نہیں رہے گا اور اس کی نشست خالی ہو جائے گی’۔

حکومت کی جانب سے اس سے قبل ہی اشارہ دیا گیا تھا کہ وزیر اعظم عمران کے خلاف تحریک عدم اعتماد ناکام کرنے کے لیے آرٹیکل 63 اے کا استعمال کیا جائے گا۔

رواں ہفتے کے آغاز میں پارلیمانی امور کے بارے میں وزیر اعظم کے مشیر بابر اعوان نے کہا تھا کہ آئین کے آرٹیکل 63 اے کا مقصد یہ ہے کہ پارٹی قیادت کے نام پر ووٹ لینے والے کسی شخص کو فلور کراسنگ کرنے کی اجازت نہیں دی جائے۔

انہوں نے دعویٰ کیا تھا کہ ’ہم آئین اور قانون کے ذریعے تحریک عدم اعتماد کچل دیں گے’۔

اپنا تبصرہ بھیجیں