اسرائیل نے متحدہ عرب امارات کے ساتھ آزاد تجارتی معاہدے (ایف ٹی اے) پر دستخط کردیے، یہ عرب ریاست کے ساتھ ایک بڑا تجارتی معاہدہ ہے جس کا مقصد مشرقِ وسطیٰ کی دو ریاستوں کے درمیان تجارت کو فروغ دینا ہے۔
رپورٹ کے مطابق مذکورہ معاہدے پر مہینوں سے جاری مذاکرات کے بعد دستخط کیے گئے۔
یو اے ای میں اسرائیل کے سفیر عامر ہائیک نے ایک ٹوئٹ میں کہا تھا کہ ’اگلے گھنٹے میں یو اے ای اور اسرائیل ایف ٹی اے پر دستخط کریں گے‘، معاہدے کے بعد اپنے ہی ٹوئٹ پر جواب دیتے ہوئے انہوں نے لکھا کہ ’ڈَن‘۔اسرائیل میں یو اے ای کے سفیر محمد الخواجہ کا کہنا تھا کہ یہ معاہدہ ایک ’بے مثال کامیابی‘ ہے۔ان کا کہنا تھا کہ ’دونوں ممالک کاروباری مارکیٹ تک تیز رسائی اور کم ٹیرف سے مستفید ہوں گے، دونوں ممالک تجارت میں اضافے، ملازمتوں میں اضافے، نئی صلاحیتوں کو فروغ دینے اور مضبوط تعاون کے لیے ایک ساتھ کام کر رہے ہیں‘۔
یو اے ای ۔ اسرائیل بزنس کونسل کے صدر دوریاں براک نے کہا کہ تجارتی معاہدے نے ٹیکس کی شرح، دانشورانہ ملکیت اور درآمدات کو واضح کیا ہے، جو اسرائیلی کمپنیوں کو یو اے ای اور خاص طور پر دبئی میں اپنے دفاتر قائم کرنے میں حوصلہ افزائی کرے گا۔
کونسل نے پیش گوئی کی ہے کہ تقریباً ایک ہزار اسرائیلی کمپنیاں یو اے ای یا اس کے ذریعے جنوبی ایشیا، مشرق بعید اور مشرقِ وسطیٰ میں کام کریں گی۔
میڈیا سے گفتگو میں دوریاں براک نے بتایا کہ ’مقامی مارکیٹ مکمل طور پر مواقع فراہم نہیں کرتی، یہ موقع صرف دبئی میں ملنے جارہا ہے جس میں بہت سی کمپنیاں وسیع ہو سکیں گی‘۔
معاہدے پر دستخط سے قبل اسرائیلی وزارت معیشت کا کہنا تھا کہ معاہدے کے ذریعے غذائی اشیا، زراعت، کاسمیٹک، طبی آلات اور ادویات پر ٹیرف ختم کردیا جائےگا۔
اسرائیلی وزیر برائے معیشت اور صنعت اورنا باربی وائی کا کہنا تھا کہ ’ہم ایک ساتھ مل کر مزاحمتیں ختم کریں گے اور وسیع پیمانے پر تجارت اور ٹیکنالوجی کو فروغ دیں گے، معاہدہ ایک مشترکہ راستے کی مضبوط راہ ہموار کرے گا‘۔
ان کا کہنا تھا کہ یہ معاہدہ شہریوں کی فلاح و بہبود اور کاروبار میں آسانی میں معاون ثابت ہوگا۔
یہ معاہدہ اسرائیل کی جانب سے فلسطین پر تشدد کے بڑھتے ہوئے واقعات کے دوران سامنے آیا ہے۔
یو اے ای کے وزارت خارجہ نے گزشتہ روز اسرائیلی فورسز کی زیر حفاظت انتہا پسند آباد کاروں کی جانب سے یروشلم میں مسجد الاقصیٰ میں دھاوا بولنے کی مذمت کی تھی۔
وزارت خارجہ نے تحریری بیان میں کہا تھا کہ ’اسرائیلی حکام سے کشیدگی کو کم کرنے اور ان تمام حملوں اور طرز عمل کو ختم کرنے کی ذمہ داری قبول کرنے کو کہا ہے جو کشیدگی کو جاری رکھنے کا باعث بنتے ہیں اور مزید عدم استحکام سے بچنے کے لیے زیادہ سے زیادہ تحمل سے کام لینے کی ضرورت پر زور دیتے ہیں۔
اسی روز مدعو کیے گئے میڈیا نمائندگان کو کہا گیا کہ وہ معاہدے کی تقریب میں شرکت نہیں کریں گے جبکہ اچانک تبدیلی کی کوئی وجہ بھی نہیں بتائی گئی۔
مسجد الاقصیٰ اسلام کا تیسرا مقدس مقام ہے اور یہودیت میں ’اسے ٹیمپل آف ماؤنٹ‘ کہا گیا ہے جو ان کے عقیدے کے مطابق دو قدیم ٹیمپلز کا نشان ہے۔
اسرائیلی وزیر اورنا بربیوائی نے اسرائیلی ریڈیو کو بتایا کہ یو اے ای کے دورے کے دوران مسجدِ اقصیٰ میں تشدد کے حوالے سے ’کچھ بھی غیر معمولی نہیں سنا‘۔
اسرائیل کا تیل پر انحصار کرنے والی معیشت کے ساتھ یہ دوسرا مشترکہ معاہدہ ہے، اس سے قبل اسی طرح کا معاہدہ بھارت کے ساتھ فروری میں کیا گیا تھا۔
اسرائیل متعدد دیگر ممالک کے ساتھ بھی دوطرفہ معاہدوں کے لیے مذاکرات میں مصروف ہے، جن میں انڈونیشیا اور جنوبی کوریا بھی شامل ہیں۔
یو اے ای جارحانہ طور پر اس طرح کے معاہدوں کی پیروی کر رہا ہے تاکہ اس کی معیشت اور حیثیت کو مضبوط کیا جاسکے، بطور معاشی حب یہ کورونا وائرس کی وجہ سے شدید متاثر ہوا ہے۔
اسرائیل اور متحدہ عرب امارات کے درمیان ستمبر 2020 میں امریکا کی ثالثی میں تعلقات قائم ہوئے تھے، جو کئی دہائیوں سے عرب کی پالیسی کی وجہ سے تعطل کا شکار تھے، انہوں تعلقات کے قیام سے قبل فلسطینی ریاست کا مطالبہ کیا تھا۔
اُسی سال بحرین اور مراکش نے بھی اسرائیل کو تسلیم کیا تھا۔