یورپی یونین کے وزرائے خارجہ کی میٹنگ میں بیلاروس پر انسانی اسمگلنگ کے تناظر نئی پابندیاں عائد کرنے پر گفتگو کی گئی۔ دوسری جانب بیلاروس اور پولینڈ کی سرحد پر غیر قانونی مہاجرین بدستور ڈھیرے ڈالے ہوئے ہیں۔
یورپی یونین کے وزرائے خارجہ کی میٹنگ میں بیلاروس پر پابندیوں کے حوالے سے گفتگو ضرور ہوئی لیکن نئی پابندیوں کے اطلاق کا کوئی اعلان نہیں کیا گیا۔
اس کا امکان ہے کہ اس میٹنگ کی روشنی میں منسک حکومت کو جلد ہی نئی پابندیوں کا سامنا ہو سکتا ہے۔ ان پابندیوں میں بیلاروس کی بعض شخصیات اور ادارے بھی شامل ہو سکتے ہیں، جن کو ٹارگٹ کیا جائے گا۔ ان پر الزام عائد ہے کہ وہ انسانوں کی غیرقانونی اسمگلنگ کے مرتکب ہوئے ہیں۔
نئی پابندیوں کے ممکنہ اثرات
وزرائے خارجہ نے اپنی میٹنگ میں ممکنہ نئی پابندیوں کی مکمل سیاسی حمایت و تائید کی ہے۔ ابھی ان ممکنہ پابندیوں کی تفصیلات کو سامنے نہیں لایا گیا ہے کیونکہ ان کی جزئیات کو حتمی شکل دی جا رہی ہے۔
یورپی یونین کے خارجہ امور کے چیف جوزف بوریل کا البتہ یہ کہنا تھا کہ نئی پابندیوں میں اہم افراد کو ہدف بنایا گیا ہے۔ انہوں نے واضح کیا کہ ان پابندیوں کو چند دنوں میں حتمی شکل دے دی جائے گی۔ دوسری جانب دو سفارت کاروں نے نام مخفی رکھتے ہوئے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ پابندیوں کو حتمی شکل دینے میں کم از کم دو ہفتے لگ سکتے ہیں۔
جرمن وزیر خارجہ ہائیکو ماس کا کہنا تھا کہ انسانی اسمگلنگ میں اگر صدر لوکاشینکو بھی ملوث پائے گئے تو انہیں بھی یورپی یونین کی پابندیوں کا سامنا کرنا ہو گا۔ ماس نے یہ الفاظ میٹنگ کے بعد رپورٹرز کے ساتھ گفتگو کرتے ہوئے کہے۔لیتھوینیا کے وزیر خارجہ گیبریلیئس لینڈسبیرگس نے کہا کہ یورپی یونین منسک کے ہوائی اڈے کو بھی ٹارگٹ کرنا چاہتی ہے اور اس کو نو فلائی زون قرار دیا جا سکتا ہے۔ لیتھوینیا بھی پولینڈ اور لیٹویا کی طرح ایک وہ ملک ہے، جس کی سرحد پر بیلاروس مہاجرین کو دھکیل چکا ہے۔
موجودہ پابندیوں کا اجمالی خاکہ
یورپی یونین اب تک چار مراحل میں بیلاروس پر مختلف نوعیت کی پابندیوں کا نفاذ کر چکی ہے۔ ان پابندیوں کا سلسلہ اکتوبر سن 2020 میں شروع ہوا تھا، جب بیلاروس کے صدارتی الیکشن میں عدم شفافیت کے بعد انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے سلسلے میں جمہوریت نواز مظاہرین اور سرگرم کارکنوں کا استحصال شروع کر دیا گیا تھا۔
یونین نے اب تک ایک سو چھیاسٹھ افراد اور پندرہ اداروں کو ٹارگٹ کرتے ہوئے ان کے اثاثے منجمد کرنے کے علاوہ سفری پابندیاں بھی عائد کر دی ہیں۔ پابندیوں کا آخری مرحلہ اس وقت مکمل کیا گیا تھا، جب رائن ایئر کی ایک پرواز کو بیلاروس میں جبری طور پر اتار کر اس میں سوار منسک حکومت کے ایک مخالف کو گرفتار کر لیا گیا تھا۔
کیا روس بھی پابندیوں کی زد میں آ سکتا ہے؟
برسلز میں کئی سفارت کاروں اور تجزیہ کاروں کو شک ہے کہ پولینڈ اور بیلاروس کے سرحدی بحران میں کریملن کو نظرانداز کرنا غیر مناسب ہو گا۔ دوسری جانب ماسکو حکومت نے واضح کیا ہے کہ اس سرحدی بحران سے اس کا کوئی لینا دینا نہیں ہے۔اس تناظر میں یورپی یونین کے خارجہ امور کے چیف جوزف بوریل کا کہنا ہے کہ انہیں یقین نہیں کہ بیلاروس کے صدر لوکاشینکو روس کی مدد کے بغیر جو اب کر رہے ہیں، وہ کر سکتے ہیں۔ اس سارے معاملے میں بعض تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ یورپی یونین کو معاملے کی اصل جڑ تک پہنچنا چاہیے۔گروننگن یونیورسٹی کے بین الاقوامی امور کے پروفیسر فرانسسکو جیومیلی کا کہنا ہے کہ پابندیاں ایسے نہیں لگتی اور اس کے لیے مناسب اور قوی شواہد کا ہونا ازحد ضروری ہے۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ ماسکو حکومت کا اس بحرانی صورت حال کے ساتھ رابطہ جوڑنا بظاہر بہت مشکل دکھائی دیتا ہے۔