ہنگامہ آرائی کے درمیان پی ایم ڈی سی کی تشکیل نو کا بل سینیٹ سے منظور

اپوزیشن کے شدید احتجاج کے دوران سینیٹ نے متعدد ترامیم کرتے ہوئے پاکستان میڈیکل اینڈ ڈینٹل کونسل (پی ایم ڈی سی) کی از سر نو تشکیل کا بل منظور کرلیا۔

 پی ٹی آئی سے تعلق رکھنے والے قائد حزب اختلاف ڈاکٹر شہزاد وسیم نے نئی ترامیم کی لمبی لسٹ پر اعتراض کرتے ہوئے بل کو دوبارہ قائمہ کمیٹی میں بھیجنے کا مطالبہ کیا، انہوں نے کہا کہ اس بل کو دوبارہ کمیٹی میں بھیجنے میں حکومت کو کوئی مسئلہ نہیں ہونا چاہئے جب کہ پینل میں ان کی اکثریت ہے ۔

دوسری جانب، حکومتی بینچوں نے بل کو فوری منظور کرنے کی اہمیت پر زور دیتے ہوئے کہا کہ یہ شعبہ طب کے طلبا کے مستقبل سے متعلق بل ہے جب کہ اپوزیشن اراکین نے الزام لگایا کہ مجوزہ قانون سازی کا مقصد نااہل پروفیشنلز بنانا اور مافیا کے مفادات کی تکمیل ہے۔

پی پی پی کے سینیٹر سلیم مانڈوی والا نے ترامیم کو حق بجانب قرار دیتے ہوئے الزام لگایا کہ قائمہ کمیٹی چیئرمین نے دشمنوں والا رویہ اپنایا، ترامیم اور حکومتی بینچوں پر بیٹھے ارکان کا مذاق اڑایا جس کی وجہ وہ اجلاس سے واک آؤٹ پر مجبور ہوئے۔

پی ٹی آئی سے تعلق رکھنے والے قائمہ کمیٹی کے چیئرمین ہمایوں مہمند نے اس الزام کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ اصل میں حکومتی ارکان نے ان کی تذلیل کرنے کی کوشش کی اور ان سے معافی کا مطالبہ کیا جب کہ انہوں نے کوئی غیر قانونی کام نہیں کیا، انہوں نے دعویٰ کیا کہ 98 فیصد ترامیم پر کوئی بحث و مباحثہ ہی نہیں ہوا۔

جیسے ہی سینیٹ چیئرمین صادق سنجرانی نے بل پیش کرنے والے سلیم مانڈوی والا کو اس میں تجویز کردہ ترامیم ایوان میں پیش کرنے کی اجازت دی تو پی ٹی آئی سے متعلق رکھنے والے قانون سازوں نے شور شرابہ ا شروع کر دیا اور ’نہیں ، نہیں‘ کے نعرے لگاتے ہوئے چیئرمین کے ڈائس کے سامنے جمع ہو گئے۔

ایوان سے منظور شدہ ترامیم کے تحت وزیراعظم آفیشل گزٹ میں نوٹیفکیشن کے ذریعے پی ایم ڈی سی کی تشکیل کریں گے۔

اس تشکیل کردہ کونسل میں سول سوسائٹی سے تعلق رکھنے والے 3 ممبران شامل ہوں گے جنہیں وزیر اعظم متعلقہ وزیر کی سفارش پر نامزد کریں گے، اس کے علاوہ ہائی کورٹ کا ریٹائرڈ جج یا 15 سال کا تجربہ رکھنے والا وکیل، مسلح افواج کے طبی شعبے سے تعلق رکھنے والا سرجن جنرل، سیکریٹری نیشنل ہیلتھ سروسز ، صوبائی ہیلتھ سیکریٹریز، ایک ڈینٹسٹ سمیت 5 لائسنس یافتہ طبی پروفیشنلز، ایک چارٹرڈ اکاؤنٹنٹ، ایک کوئی ایسا شخص جو فلاحی کاموں میں مصروف ہو اور کالج آف فزیشنز اینڈ سرجنز آف پاکستان کا ایک منتخب رکن شامل ہوگا۔

یہ بل قومی اسمبلی سے پہلے ہی منظور کیا جاچکا تھا جسے نئی ترامیم کے ساتھ دوبارہ منطوری کے لیے پارلیمنٹ کے ایوان زیریں میں بھیجا جائے گا۔

صدر مملکت کی جانب سے باضابطہ منظوری کے بعد یہ بل ایکٹ آف پارلیمنٹ بن جائے گا جس کے نتیجے میں موجودہ پاکستان میڈیکل کمیشن (پی ایم سی) ختم ہوجائے گا۔

اکتوبر 2019 میں صدر ڈاکٹر عارف علوی نے آرڈیننس جاری کرتے ہوئے پی ایم ڈی سی کو تحلیل کر کے اس کی جگہ نئی باڈی پی ایم سی قائم کی۔

اس وقت کے وزیر اعظم عمران خان کے کزن ڈاکٹر نوشیروان برکی کا بطور ہیڈ تقرر پر تنازع ہونے کے درمیان آرڈیننس کو ایکٹ آف پارلیمنٹ میں تبدیل کر دیا گیا تھا جب کہ طبی پیشے سے تعلق نہ رکھنے والے لوگوں کو باڈی میں شامل کرنے پر میڈیکل پروفیشنلز نے بھی تشویش کا اظہار کیا تھا۔

’عزت کو پامال کیا گیا‘

اپوزیشن لیڈر نے کہا کہ جس طرح پی ایم ڈی سی بل منظور کرایا گیا وہ ایوان کے وقار کے خلاف ہے، ایوان کی اس کارروائی نے مخلوط حکومت کی جانب سے نیب قانون میں کی گئی حالیہ ترامیم کی یاد تازہ کر دی جو کہ این آر او ٹو ہے۔

انہوں نے کہا کہ حکومت نے پریس کانفرنس پر پریس کانفرنس کر رہی ہے کہ وہ متنازع سائفر کی تحقیقات کراے گی جب کہ ہم تو پہلے دن سے چیف جسٹس پاکستان کی سربراہی میں جوڈیشل کمیشن کے ذریعے معاملے کی تحقیقات کا مطالبہ کر رہے ہیں۔

پی ٹی آئی کے ایک اور سینیٹر اعجاز احمد چوہدری نے کہا کہ جس طرح سے ایوان کو بلڈوز کرکے قانون سازی کی گئی یہ امپورٹڈ حکومت کے چہرے پر سیاہ داغ ہے۔

قانون سازی کا کاروبار

ایوان نے نیشنل کمیشن آن رائٹس آف چائلڈ (ترمیمی) بل 2022، پاکستان انسٹی ٹیوٹ آف میڈیکل سائنسز بل 2022 اور قومی اسمبلی سیکریٹریٹ ایمپلائز ترمیمی بل کی بھی منظوری دی۔

اس کے علاوہ، ٹرانس جینڈر پرسنز (تحفظ حقوق) ایکٹ 2018 جسے جے یو آئی(ف) اور جماعت اسلامی نے قرآن و سنہ کے احکامامات کے خلاف قرار دیا، اس میں میں ترمیم کرنے کے لیے 4 بل ایوان میں پیش کیے گئے۔

اس کے علاوہ، سینیٹر بہرام تنگی کی جانب سے توشہ خانہ سے متعلق قانون سازی کے لیے بھی ایک بل سینیٹ پیش کیا گیا۔

اپنا تبصرہ بھیجیں