کون بنے گا وزیر اعلیٰ پنجاب؟ فیصلہ آج ہوگا

ملک بھر میں آج سب کی نظریں پنجاب میں ہونے والے وزیر اعلیٰ کے انتخاب پر ہیں جس کے نتائج ملکی سیاست کا آئندہ مستقبل طے کریں گے۔

رپورٹ کے مطابق حکمران اتحاد اس بات کو یقینی بنانے کے لیے آخری حد تک کوششیں کر رہا ہے کہ اس کے پاس حمزہ شہباز کی وزارت اعلیٰ کا عہدہ بچانے کے لیے نمبرز پورے ہوں جبکہ اپوزیشن اتحاد، اپنے ارکان اسمبلی کو کسی لالچ کے نتیجے میں منحرف ہونے سے بچانے کی کوشش میں مصروف ہے۔

ضمنی انتخابات میں حکمران جماعت مسلم لیگ (ن) کو عبرتناک شکست دینے کے بعد پنجاب اسمبلی میں واضح اکثریت کے ساتھ پی ٹی آئی اور مسلم لیگ (ق) کے اتحاد کو اپنے امیدوار چوہدری پرویز الٰہی کو وزیراعلیٰ کے عہدے کے لیے منتخب کروانے میں کسی دشواری کا بظاہر کوئی امکان نہیں ہے۔

لیکن مسلم لیگ (ن) اور اس کی اتحادی جماعت پیپلز پارٹی اپوزیشن اتحاد کو آج کے انتخابات میں یہ کامیابی آسانی سے حاصل کرنے کی اجازت دینے کے موڈ میں نہیں ہیں کیونکہ اس کے نتائج پر ان کا بہت کچھ داؤ پر لگا ہوا ہے۔

حکمران اتحاد کی شکست کا سب سے زیادہ پریشان کن نتیجہ ممکنہ طور پر وہ مشکلات ہوں گی جو وفاق میں شہباز شریف حکومت کے لیے پیدا ہوں گی، اپوزیشن اتحاد کی یہ کامیابی سابق وزیراعظم عمران خان کو نئے انتخابات کرانے کے لیے حکومت پر مزید دباؤ بڑھانے کا موقع بھی فراہم کرے گی۔

371 نشتسوں پر مشتمل ایوان میں 2 استعفوں اور ایک نااہلی کے بعد اس وقت 368 ارکان اسمبلی میں سے اپوزیشن اتحاد (پی ٹی آئی اور مسلم لیگ-ق) کے پاس 187 اور مسلم لیگ (ن) کے زیرقیادت حکمران اتحاد کے پاس 179 ارکان ہیں۔

حمزہ شہباز کا وزارت اعلیٰ کے عہدے سے ہاتھ دھونا بظاہر یقینی ہے جب تک کہ اپوزیشن کے ارکان اسمبلی کے ارادوں میں کوئی تبدیلی نہ آجائے کیونکہ مسلم لیگ (ن) اور پی پی پی کی جانب سے مبینہ طور پر پی ٹی آئی یا مسلم لیگ (ق) کے زیادہ سے زیادہ ارکان اسمبلی کی وفاداریاں خریدنے کی ہر ممکن کوششیں جاری ہیں۔

رحیم یار خان سے اپنے رکن صوبائی اسمبلی چوہدری مسعود احمد کے استعفیٰ کے بعد ذرا بے چین دکھائی دینے والی پی ٹی آئی گزشتہ روز تک پارٹی سے مزید انحراف کی اطلاعات نہ ملنے پر مطمئن نظر آئی، تاہم اپوزیشن اتحاد آج الیکشن والے روز بھی شریفوں کی جانب سے کوئی ‘سرپرائز’ ملنے کے حوالے سے محتاط ہے۔

وزیر اعظم شہباز شریف کے بیٹے اور موجودہ وزیر اعلیٰ حمزہ شہباز کو بچانے کے لیے مسلم لیگ (ن) کے اہم رہنماؤں نے گزشتہ روز اپنی پارٹی کے قانونی ماہرین سے مشورہ کیا کہ وہ صوبائی حکومت کو بچانے کے لیے کوئی طریقہ تلاش کریں۔

یہ کوئی تعجب کی بات نہیں ہوگی اگر آج مسلم لیگ (ن) اسی حکمت عملی پر عمل پیرا ہو جو 3 ماہ قبل وزیراعلیٰ پنجاب کے گزشتہ انتخاب کے دوران پی ٹی آئی نے اپنائی تھی۔

16 اپریل کو پنجاب اسمبلی شدید ہنگامہ آرائی کی نذر ہوگئی تھی، اس دوران پرویز الٰہی سمیت بہت سے لوگ زخمی بھی ہو گئے تھے اور ایوان کو قانون نافذ کرنے والے اداروں نے اپنے قبضے میں لے لیا تھا۔

اس روز حمزہ شہباز 197 ووٹ لے کر وزیر اعلیٰ منتخب ہوئے تھے جن میں پی ٹی آئی کے 25 منحرف اراکین کے ووٹ بھی شامل تھے، بعد ازاں پی ٹی آئی کے یہ 25 ارکان اسمبلی (جن میں 5 خصوصی نشستیں بھی شامل ہیں) پارٹی سے انحراف کی وجہ سے ڈی سیٹ کر دیے گئے تھے جس کے بعد ایوان میں حمزہ شہباز کو ملنے والے ووٹوں کی تعداد 197 سے کم ہو کر 172 رہ گئی تھی۔

یکم جولائی کو سپریم کورٹ نے فیصلہ دیا تھا کہ وزیراعلیٰ پنجاب کا دوبارہ انتخاب 22 جولائی کو ہوگا۔

ان میں سے 5 مخصوص نشستوں کے علاوہ باقی 20 نشستوں پر ضمنی انتخابات ہوئے جن میں سے 15 نشستیں جیت کر پی ٹی آئی نے واضح کامیابی حاصل کی۔

پنجاب کے سابق ایڈووکیٹ جنرل احمد اویس نے بتایا کہ موجودہ وزیراعلیٰ کا عہدہ بچایا جا سکتا تھا اگر ان کے پاس اپنے مخالف امیدوار سے زیادہ نمبرز ہوتے۔

ان کا کہنا تھا ‘پارٹی پوزیشن کے مطابق پی ٹی آئی یا مسلم لیگ (ق) کے چند ارکان اسمبلی کے انحراف کے سوا حمزہ شہباز کا اب وزارت اعلیٰ کے عہدے پر براجمان رہنے کا کوئی امکان نہیں ہے’۔

انہوں نے کہا کہ ایسا کوئی قانونی نکتہ نہیں ہے جو مسلم لیگ (ن) کو الیکشن میں تاخیر یا ہیر پھیر میں مدد دے سکے کیونکہ یہ معاملہ براہ راست عدالت عظمیٰ کی نظر میں ہے۔

پی ٹی آئی کے ڈپٹی اسپیکر پنجاب اسمبلی دوست محمد مزاری نے گزشتہ روز اعلان کیا کہ وہ وزارت اعلیٰ کے عہدے کے لیے ’آزاد اور منصفانہ انتخابات کو یقینی بنائیں گے۔

ان کا کہنا تھا کہ انہیں لاہور ہائی کورٹ نے قانون کے مطابق الیکشن کرانے کی ذمہ داری سونپی ہے۔

دریں اثنا آصف علی زرداری نے ہارس ٹریڈنگ میں ملوث ہونے کی تردید کرتے ہوئے مسلم لیگ (ن) کے لیے اپنی پارٹی کی واضح حمایت کا وعدہ کیا۔

انہوں نے کہا ‘میں حمزہ شہباز کے لیے ووٹ کیوں خریدوں گا؟ اگر پی پی پی کے حسن مرتضیٰ پنجاب میں وزیراعلیٰ کے امیدوار ہوتے تو شاید میں ان کی مدد کرتا’۔

وزیر داخلہ رانا ثنا اللہ نے بھی کہا کہ تحریک انصاف کی صفوں میں ایسے لوگ جن کا ضمیر زندہ ہے اور شعور رکھتے ہیں تو وہ چوہدری پرویز الہیٰ کے لیے وزیر اعلیٰ کے انتخابات میں ووٹ نہیں دیں گے۔

اس سے قبل وہ علی الاعلان کہہ چکے ہیں کہ ووٹنگ کے روز اپوزیشن کے تقریباً 5 سے 7 ارکان اسمبلی غائب ہو سکتے ہیں۔

پنجاب اسمبلی کا اجلاس آج شام 4 بجے طلب کیا گیا ہے، حکمران اور اپوزیشن اتحاد کے ارکان اسمبلی لاہور کے علیحدہ علیحدہ ہوٹلوں میں ٹھہرائے گئے ہیں، انہیں آج ووٹنگ کے لیے اکٹھے پنجاب اسمبلی لے جایا جائے گا، پی ٹی آئی اور مسلم لیگ (ق) کے کارکنان حکومتی اداروں کی جانب سے کسی ممکنہ کارروائی کے پیش نظر اپنے اراکین کی حفاظت کر رہے ہیں۔

دوسری جانب آصف علی زرداری نے گزشتہ روز چند گھنٹوں کے دوران مسلم لیگ (ق) کے صدر چوہدری شجاعت حسین سے 2 بار ملاقات کی۔

اطلاعات کے مطابق پرویز الٰہی اور ان کے بیٹے مونس الہٰی کو بھی اس ملاقات میں شامل ہونے کا پیغام بھیجا گیا تاہم دونوں نے انکار کر دیا۔

چوہدری شجاعت اور آصف زرداری کی ان 2 ملاقاتوں کے دوران آخری حربے کے طور پر بظاہر جو تجاویز زیر بحث آئیں وہ یہ تھیں کہ پرویز الٰہی مسلم لیگ (ن) کی جانب سے وزیراعلیٰ کا انتخاب لڑیں یا پھر وہ مسلم لیگ (ق) کے ارکان اسمبلی کو پارٹی امیدوار کے حق میں ووٹ نہ دینے کو کہیں۔

‘ارکان اسمبلی کو بحفاظت ووٹ ڈالنے کی سہولت فراہم کی جائے’

دریں اثنا لاہور ہائی کورٹ نے چیف سیکریٹری پنجاب اور انسپکٹر جنرل پولیس کو حکم دیا کہ وہ اس بات کو یقینی بنائیں کہ تمام ارکان اسمبلی آج وزیراعلیٰ کے انتخاب میں اپنا ووٹ بحفاظت اور آزادانہ طور پر ڈالیں۔

جسٹس عالیہ نیلم نے یہ حکم پی ٹی آئی کی رکن اسمبلی زینب عمیر اور سبطین خان کی درخواستیں نمٹاتے ہوئے دیا۔

درخواست گزاروں کی جانب سے ایڈووکیٹ اظہر صدیق نے کہا کہ درخواست گزاروں کی واحد استدعا یہ ہے کہ پولیس اور انتظامیہ کو ہدایت دی جائے کہ وہ ارکان اسمبلی کو ہراساں کیے جانے کے بغیر اپنا ووٹ محفوظ طریقے سے ڈالنے میں سہولت فراہم کریں۔

انہوں نے الزام عائد کیا کہ پی ٹی آئی کے ارکان اسمبلی کو وزیر داخلہ رانا ثنا اللہ اور دیگر ریاستی عہدیداروں کے ہاتھوں ہراساں کیا گیا۔

درخواست گزار نے یہ بھی کہا کہ ایسے خدشات موجود ہیں کہ وزیر اعلیٰ کے انتخاب کو سبوتاژ کرنے کے لیے وزیر داخلہ ریاستی مشینری کو استعمال کر سکتے ہیں۔

تاہم ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل ناصر چوہان نے پولیس چیف کی جانب سے جواب جمع کرایا جس میں کہا گیا کہ درخواست گزاروں یا کسی اور رکن اسمبلی کو ہرگز ہراساں نہیں کیا گیا اور نہ ہی دھمکی دی گئی۔

اپنا تبصرہ بھیجیں