کرسمس کے بعد جرمنی میں سخت پابندیاں تجویز

جرمنی میں کووڈ انیس کے تیز رفتار پھیلاؤ کو روکنے کی خاطر پابندیاں سخت کی جا رہی ہیں۔ کرسمس کے بعد 10 لوگوں سے زیادہ کے اجتماع پر بھی پابندی لگ جائے گی۔

جرمنی میں کووڈ انیس کے نئی تبدیل شدہ قسم اومیکرونکے تیزی سے پھیلاؤ کو روکنے کی خاطر وفاقی اور صوبائی حکومتوں نے سخت اقدامات کا فیصلہ کر لیا ہے۔

نئی پابندیوں میں اس بات کو بالائے طاق رکھتے ہوئے 10سے زیادہ لوگوں کے اجتماع پر پابندی عائد کی جا رہی ہے کہ ان لوگوں نے کووڈ انیس کے خلاف ویکسین کرا رکھی ہے یا وہ اس بیماری سے شفا یاب ہو چکے ہیں۔

جرمن چانسلر اولاف شولس نے کہا کہ امید تھی کی اس عالمی وبا پر قابو پا یا جائے گا لیکن ایسا نہیں ہوا ہے۔ انہوں نے کہا کہ اس صورتحال میں شہریوں کو حکومتی گائیڈ لائنز پر عمل کرنا چاہیے۔
منگل 22 دسمبر کو

 بتایا گیا ہے کہ حکومت متفق ہو گئی ہے کہ پرائیویٹ طور پر زیادہ سے زیادہ 10 لوگوں کے ایک جگہ جمع ہونے کی حد مقرر ہو۔ اس کے علاوہ کلبوں اور ڈسکو بارز کی بندش اور فٹ بال میچ اور دیگر بڑے ایونٹس شائقین کے بغیر ہی کرائے جانے کا فیصلہ بھی کیا گیا ہے۔ 

نئے قواعد کیا ہیں؟

مکمل ویکسین لگوانے والے یا کووڈ انیس سے صحت یاب ہونے والے افراد نجی سطح پر ہونے والی کسی بھی تقریب میں شریک ہوں سکیں، لیکن اس اجتماع میں 10 سے زیادہ افراد کے جمع ہونے پر پابندی ہو گی۔

اگر ویکسین نہیں کرائی ہوئی تو صرف دو گھرانے ہی کسی مقام پر جمع ہو سکیں گے، یہ ضابطہ، بند مقامات یا کھلے مقامات دونوں پر ہو لاگو گا۔

ریستوانوں میں وہی لوگ جا سکیں گے، جن کے پاس مکمل ویکسین یا اس بیماری سے تندرست ہوجانے کا ثبوت ہو گا۔

جرمنی میں لاگو ہونے والے نئے قواعد و ضوابط میں ایک بڑی بندش بڑے ایونٹس کے انعقاد کو ممنوعہ قرار دیا جانا ہے۔ 28 اگست کے بعد سے کھلیوں، ثقافت، کنسرٹس اور دیگر سرگرمیوں میں میں عوام کی شرکت پر پابندی ہو گی۔

نئے سال کے موقع پر تقریبات منسوخ کر دی گئی ہیں جبکہ نئے سال کی خوشی میں روایتی طور پر کی جانے والی آتش بازی کے ایونٹس بھی منعقد نہیں کیے جائیں گے۔

نئے ضوابط میں یہ یقینی بنانے کی کوشش کی جا رہی ہے کہ اس عالمی وبا میں عائد کی جانے والی ان پابندیوں سے متاثر ہونے والے افراد کو مالی مدد پہنچائی جائے۔ بتایا گیا ہے اس تناظر میں سابقہ حکومت کی پالیسیوں کو جاری رکھا جائے گا۔

پابندیوں کا اطلاق کرسمس کے بعد کیوں؟

جرمن چانسلر اولاف شولس نے بتایا ہے کہ تمام 16 صوبائی حکومتوں نے دانستہ دور پر یہ فیصلہ کیا ہے کہ سخت پابندیوں کا اطلاق کرسمس کی تعطیلات کے بعد کیا جائے۔ انہوں نے صحافیوں سے گفتگو میں مزید کہا کہ ماضی کے تجربات بتاتے ہیں کہ کرسمس یا ایسٹر کے مواقع پر کووڈ انیس میں مبتلا ہونے والے افراد کی تعداد میں غیر معمولی اضافہ نہیں ہوا۔

شولس نے اس تناظر میں جرمن عوام کی ستائش کرتے ہوئے کہا لوگ ان چھٹیوں میں احتیاط کرتے ہیں اور ذمہ دارنہ رویہ دکھاتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اس لیے کرسمس کے بجائے سال نو کی تقریبات پر پابندیاں عائد کی جا رہی ہیں۔

ملک گیر لاک ڈاؤن ممکن ہے

ان نئے ضوابط کے تحت اگرچہ لاک ڈاؤن نہیں کیا جا رہا تاہم جرمن حکومت نے ملک گیر لاک ڈاؤن کو خارج از امکان قرار نہیں دیا ہے۔ اس تناظر میں رکن پارلیمان یوہانس واگنر نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ جرمن حکومت زیادہ سخت اقدامات کی تیار کر رہی ہے اور اگر صورتحال کنٹرول سے باہر ہوئی تو لاک ڈاؤن ممکن بھی ہے۔

برسر اقتدار مخلوط حکومت میں شامل گرین پارٹی سے وابستہ واگنر کے مطابق کووڈ انیس پر قابو پانے کی خاطرت وہ سب کچھ کیا جا رہا ہے، جس کی ضرورت ہے لیکن  انتہائی ابتر حالات میں ملک گیر لاک ڈاؤن کی تیاری پہلے سے ہی کر لینا چاہیے۔

جرمن پارلیمان اس حوالے سےبھی فیصلہ سازی کرنے والی ہے کہ آیا کووڈ انیس کی ویکسین کو تمام لوگوں کے لیے لازمی قراردے دیا جائے۔ واگنر نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ وہ آئندہ برس سے لازمی ویکسین کے حق میں ہیں کیونکہ اس طرح اس وبا پر قابو پانے میں بڑی مدد مل سکتی ہے۔

انفیکشن کی شرح میں کمی

جرمنی میں متعدی امراض کے کنٹرول اور ریسرچ کے ادارے رابرٹ کوخ انسٹی ٹیوٹ نے کہا ہے کہ کووڈ انیس کی نئی تبدیل شدہ قسم اومیکرون ایسے افراد کو لاحق ہونے کے امکانات زیادہ ہیں، جنہوں نے مکمل ویکسین کروا رکھی ہے یا جو اس وبا سے صحت یاب ہو چکے ہیں۔

اس ادارے نے کہا ہے کہ ایسے افراد جنہوں نے بوسٹر شاٹ لگوا لیا ہے، ان کے اومیکرون سے متاثر ہونے کے امکانات کم ہیں لیکن ایسے افراد جنہوں نے ویکسین نہیں لی، ان میں اس نئی قسم کا شکار ہونے کے خطرات بہت زیادہ ہیں۔

رابرٹ کوخ انسٹی ٹیوٹ نے اصرار کیا ہے کہ لوگ ویکسین لگوائیں اور جو پہلے سے ویکسین کی دو ٹیکے لگوا چکے ہیں وہ بوسٹر شاٹ یعنی تیسرا ٹیکہ بھی لگوا لیں۔ اس ادارے نے بتایا ہے کہ گزشتہ ہفتے کے مقابلے میں نئی انفیکشنز کی شرح کم ہوئی ہے لیکن ایسا نہیں کہ صورتحال بہتر ہوئی ہے۔

دوسری طرف ویکسین مخالف گروپوں کی طرف سے احتجاج کا سلسلہ بھی دیکھا جا رہا ہے۔ رواں ہفتے ہی جرمنی کے مختلف شہروں میں مظاہرین کی بڑی تعداد لازمی ویکسین کے قانون کے خلاف نکلی جبکہ منہائم میں تو مظاہریناور پولیس کے مابین تصادم بھی ہوا، جس کے نتیجے میں13 پولیس اہلکار زخمی بھی ہو گئے۔ دیگر یورپی ممالک کی طرح جرمنی میں بھی لاک ڈاؤن اور ویکسین مخالف افراد کی تعداد میں اضافہ نوٹ کیا جا رہا ہے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں