پاکستان نے چین سے پیٹرولیم مصنوعات کی درآمد پر 10 فیصد ریگولیٹری ڈیوٹی عائد کردی جب کہ رواں سال ڈیوٹی فری درآمدات میں 673 فیصد اضافے کے بعد 2 کھرب 50 ارب روپے تک پہنچ گئی اور پاک چین آزاد تجارتی معاہدے (سی پی ایف ٹی اے) کی آڑ میں 25 ارب روپے ریونیو نقصان ہوا۔
رپورٹ کے مطابق یہ فیصلہ کابینہ کی اقتصادی رابطہ کمیٹی (ای سی سی) کے اجلاس میں کیا گیا جس میں 30 جون سے قبل کے اخراجات کے لیے دفاعی خدمات کے لیے اضافی 81 ارب روپے سمیت ایک کھرب 47 ارب روپے کی ضمنی گرانٹس کی منظوری دی گئی۔
وزیر خزانہ مفتاح اسمٰعیل کی زیر صدارت اجلاس میں وزارت خزانہ اور ریونیو بورڈ کے افسران اور عملے کو اعزازیہ کی غیر متعینہ رقم دینے کی سمری کی بھی منظوری دی گئی۔
. یہ فیصلے حکومت کی جانب سے بجٹ کے بوجھ کو کم کرنے کے لیے پیٹرولیم کی قیمتوں میں اضافے کے ایک روز بعد سامنے آئے ہیں۔
ملک کی درآمدی پالیسی کے تحت پیٹرولیم مصنوعات کی درآمدات پر 10 فیصد کسٹم ڈیوٹی لگائی جاتی ہے جبکہ مقامی ریفائنریز کے ذریعے ان مصنوعات کی مقامی پیداوار پر بھی 10 فیصد کے مساوی ڈیمڈ ڈیوٹی لاگو ہوتی ہے۔
تاہم 2019 میں طے ہونے والا سی پی ایف ٹی اے دو طرفہ تجارت میں پیٹرولیم مصنوعات سمیت ہزاروں اشیا کو ڈیوٹی کی چھوٹ فراہم کرتا ہے۔
ابھی تک یہ واضح نہیں ہے کہ پیٹرولیم کی درآمدات کو 2019 میں نظرثانی شدہ سی پی ایف ٹی اے کا حصہ کیسے اور کیوں بنایا گیا جب کہ چین تیل کا خالص درآمد کنندہ ہے اور یہ مصنوعات 2006 میں دستخط کیے گئے اور پھر 2016 میں نظرثانی شدہ ایف ٹی اے میں بھی شامل نہیں تھیں۔
یہ بھی حیرت انگیز کہ ایسی سہولت ملائیشیا کے ساتھ ہوئے آزادانہ تجارتی معاہدے کا حصہ نہیں ہے جو ایک بڑا تیل پیدا کرنے والا اور برآمد کنندہ ہے۔
باخبر ذرائع نے بتایا کہ ای سی سی کو بتایا گیا کہ سی پی ایف ٹی اے کے تحت کسٹم ڈیوٹی کی چھوٹ کی وجہ سے کچھ آئل مارکیٹنگ کمپنیوں (او یم سیز) نے خاص طور پر ایک ملٹی نیشنل کمپنی نے سی پی ایف ٹی اے کا فائدہ اٹھاتے ہوئے چین سے پیٹرول کی درآمدات میں اضافہ کیا۔
حکومت او ایم سیز کے خلاف کچھ نہیں کر سکی کیونکہ چین سے اس طرح کی سورسنگ سی پی ایف ٹی اے کے تحت قانونی تھی حالانکہ ایف ٹی اے کی چھوٹ حاصل کرنے والے درآمد کنندگان صفر کسٹم ڈیوٹی ادا کرتے ہیں جبکہ دیگر 10 فیصد کی شرح سے کسٹم ڈیوٹی ادا کرتے ہیں۔
اس کے نتیجے میں چین سے پیٹرول کی درآمدات پر قیمتوں میں تقریباً 10 فیصد کی بچت ہوتی ہے اور او ایم سیز کے ذریعے اس فرق کو خزانے یا صارفین تک پہنچانے کے بجائے ونڈ فال منافع کے طور پر برقرار رکھا جاتا ہے۔
پلیٹس آئل گرام میں شائع ہونے والی بین الاقوامی پیٹرول کی قیمت پر اس وقت فرق 20 روپے فی لیٹر تک جا پہنچا ہے۔
سمری کی تیاری کے وقت یہ بتایا گیا کہ اس طرح کی درآمدات مالی سال 2021 میں 30 ارب روپے سے بڑھ کر 2 کھرب 32 ارب روپے تک پہنچ گئیں جس سے مالی سال 2022 میں فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) پر 23 ارب روپے کے منفی اثرات مرتب ہوئے۔
اس لیے ای سی سی نے 10 فیصد ریگولیٹری ڈیوٹی پیٹرول کی اس درآمد پر لگانے کا فیصلہ کیا جہاں کسٹم ڈیوٹی صفر تھی۔
تاہم پیٹرول کی درآمد جہاں 10 فیصد کسٹم ڈیوٹی ادا کی جاتی ہے وہ ریگولیٹری ڈیوٹی سے مستثنیٰ ہوگی،ٹیرف ایڈوائزری بورڈ نے پہلے ہی 28 فروری 2022 کو اس تجویز کو منظوری دے دی تھی۔