اسلام آباد ہائی کورٹ نے پیپلزپارٹی (پی پی) اور مسلم لیگ ن کے پارٹی فنڈنگ کیسز کے فیصلے جلد کرنےکی پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کی درخواست پر فیصلہ محفوظ کرلیا۔
چیف جسٹس عامر فاروق نے پی ٹی آئی رہنما فرخ حبیب کی درخواست پرفیصلہ محفوظ کیا ہے۔
آج دوران سماعت پٹیشنر کی جانب سے وکیل انور منصور خان اور ان کی معاون عمائمہ انور عدالت میں پیش ہوئیں۔
چیف جسٹس عامرفاروق نے استفسار کیا کہ کیا یہ کورٹ الیکشن کمیشن کو ہدایات جاری کرسکتی ہے؟ یہ ایک سادہ سا سوال ہے، الیکشن کمیشن آئینی ادارہ ہے، الیکشن کمیشن کو ہدایات جاری کرنے پر کوئی ججمنٹ یا قانون ہے تو پیش کریں، الیکشن کمیشن کا طریقہ کار تھوڑا خراب ہوگیا ورنہ یہ مسائل نہ ہوتے، پارٹی اکاؤنٹس کے آڈٹ کے بعد پارٹی کو شوکاز کرکے صفائی کا موقع دینا چاہیے تھا، الیکشن کمیشن کو باقی کارروائی بعد میں کرنی چاہیے تھی۔
معاون وکیل عمائمہ انور کا کہنا تھا کہ آرٹیکل199 سی نے اسلام آباد ہائی کورٹ کو وسیع اختیارات دیے ہیں، ہمارا کیس یہ ہے کہ ہمارے ساتھ امتیازی سلوک کیا گیا ہے۔
چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ کتنا وقت لگےگا باقی پارٹیز کی اسکروٹنی کرنے میں؟ اس پر وکیل الیکشن کمیشن کا کہنا تھا کہ ہم اس حوالے سے فکس ٹائم نہیں دے سکتے، ابھی معاملہ اسکروٹنی کمیٹی میں ہی ہے۔
چیف جسٹس نےکہا کہ اسکروٹنی کمیٹی میں ایک اکاؤنٹنٹ کو بھی شامل کرنا چاہیے تھا۔ وکیل الیکشن کمیشن نے کہا کہ اسکروٹنی کمیٹی میں اے جی پی آر سے ایک اکاؤنٹنٹ شامل ہے۔ معاون وکیل نے کہا کہ گورنمنٹ اکاؤنٹس اور پارٹی اکاؤنٹ میں فرق ہوتا ہے،کوئی پرائیویٹ اکاؤنٹنٹ ہائر کرنا چاہیے تھا۔
وکیل الیکشن کمیشن کا کہنا تھا کہ انتخابات کی وجہ سے کام کا بڑا بوجھ ہے۔ عدالت نے کہا کہ الیکشن تو آپ کروا ہی نہیں رہے، وہ تو اکتوبر میں ہیں، تب تک یہ کام مکمل کرلیں۔
معاون وکیل عمائمہ انور نےکہا کہ ہمیں اس کیس کی بنیاد پر الیکشن سے ڈی فرنچائز کرسکتے ہیں، چیف جسٹس نےکہا کہ آپ کو کوئی ڈی فرنچائز نہیں کر رہا۔
معاون وکیل کا کہنا تھا کہ ہمارے لیے جو ٹی او آرز تھے وہ باقی پارٹیوں کے لیے نہیں ہیں، ہمارے 5 سال کے اکاؤنٹ دیکھے، باقیوں کے 6 ماہ کے دیکھ رہے ہیں۔
عدالت نے دلائل مکمل ہونے پر فیصلہ محفوظ کرلیا۔