پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے مسلسل مظاہروں اور دفاتر کے باہر ہونے والے ملک گیر احتجاج سے بے نیاز الیکشن کمیشن آف پاکستان نے منگل کو اپنی آئینی ذمہ داریاں کسی خوف اور دباؤ کے بغیر انجام دینے کا عہد کیا ہے۔رپورٹ کے مطابق الیکشن کمیشن آف پاکستان نے ایک بیان میں کہا کہ اپنی قانونی اور آئینی ذمے داریوں کو غیر جانبدارانہ رہ کر ادا کر رہے ہیں اور کسی خوف اور پسند، ناپسند کے بغیر ایسا کرتے رہیں گے۔اس سلسلے میں کہا گیا کہ قومی اسمبلی کے اسپیکر نے 20 اراکین قومی اسمبلی کے خلاف آرٹیکل 63-اے کے تحت 14 اپریل کو چیف الیکشن کمشنر کو بیانات بھیجے تھے جن کی سماعت کے لیے 28 اپریل کی تاریخ مقرر کی گئی تھی۔
اسی طرح اس میں کہا گیا کہ پنجاب اسمبلی کے اسپیکر نے 20 اپریل کو 26 اراکین کے خلاف ڈکلیریشن بھیجے تھے جنہیں 6 مئی کے لیے نوٹس جاری کیے گئے تھے، متعلقہ پارٹی کو بھی نوٹس جاری کیا گیا تھا۔
کمیشن نے نشاندہی کی کہ قانون کے تحت الیکشن کمیشن آف پاکستان کو ڈکلیریشن پر وصولی کے 30 دن کے اندر فیصلہ کرنا ہو گا۔
پی ٹی آئی، مسلم لیگ (ن)، پاکستان پیپلز پارٹی اور پاکستان پیپلز پارٹی پارلیمنٹیرینز کے خلاف غیر ملکی فنڈنگ کیسز کے بارے میں کمیشن نے کہا کہ الیکشن کمیشن آف پاکستان کی اسکروٹنی کمیٹی نے پی ٹی آئی کے خلاف غیر ملکی فنڈنگ کیس سے متعلق اپنی رپورٹ دسمبر میں کمیشن کو پیش کی تھی جو اب اپنے حتمی مرحلے میں ہے۔
اس میں کہا گیا ہے کہ مدعا علیہ (پی ٹی آئی) کی طرف سے دلائل جاری ہیں اور ان کے دلائل مکمل کرنے کے لیے بدھ سے جمعہ تک سماعت ہو گی۔
اس میں کہا گیا کہ اسکروٹنی کمیٹی 9 مئی کو مسلم لیگ (ن)، پاکستان پیپلز پارٹی اور پاکستان پیپلز پارٹی پارلیمنٹیرینز کے خلاف غیر ملکی فنڈنگ کیسز کی سماعت کرے گی اور اس نے اس مقصد کے لیے کچھ ضروری ریکارڈ طلب کیا ہے۔
اس میں مزید کہا گیا کہ الیکشن کمیشن آف پاکستان نے اسکروٹنی کمیٹی کے چیئرمین سے بھی کہا ہے کہ وہ 28 اپریل تک ان کیسز پر رپورٹ پیش کریں، انہوں نے کسی نہ کسی بہانے ان مقدمات کی سماعت اور کارروائی میں تاخیر کے لیے متعلقہ سیاسی جماعتوں کو ذمہ دار ٹھہرایا۔
اس میں کہا گیا ہے کہ عامر محمود کیانی نے 20 جنوری 2020 کو پی ٹی آئی سمیت 101 سیاسی جماعتوں کے سال 2014 سے 2018 تک کے اکاؤنٹس کے آڈٹ کے لیے درخواست دائر کی تھی، جانچ پڑتال کی مشق کے بعد کمیشن نے 3 فروری 2020 کو 18 سیاسی جماعتوں کو نوٹس جاری کیے تھے اور کیس کی باقاعدہ سماعت کے لیے 18 فروری 2020 کی تاریخ مقرر کی تھی۔
اس میں کہا گیا ہے کہ سیاسی جماعتیں بھی اس معاملے میں تاخیری حربے استعمال کر رہی ہیں اور فریقین کے خلاف کارروائی شروع کر دی گئی ہے جنہوں نے نہ تو جواب جمع کرائے اور نہ ہی کمیشن کے سامنے پیش ہوئے۔
الیکشن کمیشن کے ایک سینئر اہلکار نے میڈیا کو بتایا کہ اگر قبل از وقت انتخابات کرانے کا سیاسی فیصلہ کیا گیا تو کمیشن اکتوبر کے آخر تک عام انتخابات کرانے کے لیے آرام دہ پوزیشن میں ہوگا، انہوں نے کہا کہ اس صورت میں ہم تازہ مردم شماری کا انتظار نہیں کریں گے جو حکومت اگست میں شروع کرنے کا ارادہ رکھتی ہے۔
انہوں نے کہا کہ ایسی صورتحال میں انتخابات 2017 کی مردم شماری کی بنیاد پر جاری حد بندی کے مطابق ہوں گے، محض مردم شماری کا آغاز کسی بھی صورت میں فوری انتخابات کی راہ میں قانونی رکاوٹ نہیں بنے گا۔