پیوٹن کا یوکرین کے چار علاقے روس میں ضم کرنے کا اعلان، قبضہ قائم رکھنے کا عزم

روس کے صدر ولادیمیر پیوٹن نے کریملن میں ایک تقریب کے دوران یوکرین کے 4 علاقوں کا باضابطہ طور پر روس کے ساتھ الحاق کرنے کے بعد یوکرین پر زور دیا ہے کہ ہتھیار ڈال کر 7 ماہ سے جاری جنگ کے اختتام کے لیے مذاکرات کی میز پر آئیں۔

کریملن میں منعقد شان دار تقریب کے دوران روس کی سینئر سیاسی قیادت سے خطاب کرتے ہوئے روسی صدر ولادیمیر پیوٹن نے مغربی ممالک کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ روس کے ساتھ الحاق کرنے والے علاقے ناقابل واپسی ہیں۔

پیوٹن نے یوکرین کی فوج پر زور دیا کہ وہ ہتھیار ڈال کر مذاکرات کی میز پر آئیں۔

خیال رہے کہ سویت یونین کے خاتمے کے بعد یوکرین کے چار علاقوں کھیرسن، زپوریزہیا، ڈونیٹسک اور لوہانسک کا الحاق روس کی سیاسی تاریخ میں ایک نیا موڑ ہے۔

تقریب سے خطاب کرتے ہوئے روسی صدر نے کہا کہ ’میں یوکرین اور اس کے سرپرست مغرب ممالک کو کہنا چاہتا ہوں کہ ان چاروں علاقوں میں رہنے والے لوگ اب ہمشیہ کے لیے ہمارے شہری ہو رہے ہیں‘۔

انہوں نے کہا کہ ’ہم یوکرین حکومت سے مطالبہ کرتے ہیں کہ اب وہ فوری طور پر تمام تنازعات اور جنگ ختم کرکے مذاکرات کی میز پر واپس آئیں‘۔

روسی صدر نے خبردار کیا کہ روس میں شامل ہونے والے چاروں علاقوں پر کنٹرول جاری رکھنے کے لیے وہ جوہری ہتھیاروں کا استعمال بھی کر سکتے ہیں جبکہ یوکرین نے اس عزم کا اظہار کیا ہے کہ اس اقدام سے روسی فوجیوں کو باہر نکالنے کے اس کے مقصد پرکوئی اثر نہیں پڑتا۔

روس کی طرف سے چاروں علاقوں کے باضابطہ الحاق کے بعد یوکرین کے صدر ولادیمیر زیلنسکی کے ترجمان نے کہا کہ ’ولادیمیر زیلنسکی نے آج اپنی قومی سلامتی کا ہنگامی اجلاس طلب کیا ہے۔

یوکرین نے الحاق کے بعد ردعمل دیتے ہوئے کہا کہ ’مغرب کا واحد مناسب جواب صرف روس پر مزید پابندیاں عائد کرنا اور یوکرین کی فوج کو مزید ہتھیار فراہم کرنا ہے تاکہ ہم پھر سے اپنے علاقوں کو واپس حاصل کر سکیں۔

یوکرین کے قریبی حمایتی امریکا نے کہا ہے کہ وہ کبھی بھی ان علاقوں پر روس کے اختیار کو تسلیم نہیں کرے گا۔

امریکی صدر جو بائیڈن نے کہا کہ ’امریکا کبھی بھی ان علاقوں پر روس کی حکمرانی تسلیم نہیں کرے گا، جن کا روس کے ساتھ الحاق کیا گیا ہے۔

دوسری جانب، روس کے ساتھ الحاق کرنے والے چاروں علاقوں کے روسی حمایت یافتہ رہنماؤں نے بھی باضابطہ طور پر الحاق کی درخواست کی اور دعویٰ کیا کہ جلدی میں ہونے والے ریفرنڈم کی عوام نے حمایت کی تھی، تاہم یوکرین اور مغربی ممالک نے ریفرنڈم کو جعلی قرار دیتے ہوئے مسترد کیا تھا۔

اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے موجودہ صدر فرانس نے کہا کہ ’اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل ریفرنڈم کی مذمت کے لیے قرارداد لائے گی لیکن روس کے ویٹو پاور کی وجہ سے اس کے منظور ہونے کا کوئی امکان نہیں ہے‘۔

واضح رہے کہ روس نے رواں برس فروری میں یوکرین میں فوجی آپریشن شروع کیا تھا جس کے بعد مغربی ممالک نے روس پر متعدد پابندیاں عائد کر رکھی ہیں۔

اپنا تبصرہ بھیجیں