پاکستان تحریک انصاف(پی ٹی آئی) نے پنجاب اسمبلی کی پانچ مخصوص نشستوں پر نئے اراکین صوبائی اسمبلی کے نوٹیفکیشن سے متعلق الیکشن کمیشن آف پاکستان (ای سی پی) کے فیصلے کو چیلنج کرتے ہوئے لاہور ہائی کورٹ میں اپیل دائر کی ہے۔
یہ پانچ مخصوص نشستیں پی ٹی آئی کے 25 منحرف اراکین اسمبلی کی ڈی سیٹنگ کے بعد خالی ہوئی تھیں۔درخواست ایک عام شہری زینب عمیر کی جانب سے جمع کرائی گئی۔
گزشتہ ماہ خواتین اور اقلیتوں کی مخصوص نشستوں پر منتخب پی ٹی آئی کے پانچ اراکین سمیت 25 منحرف اراکین اسمبلی کو پنجاب کے وزیر اعلیٰ کے انتخاب میں مسلم لیگ(ن) کے حمزہ شہباز کو ووٹ دینے پر ڈی سیٹ کر دیا گیا تھا اور انہیں 23 مئی کو الیکشن کمیشن آف پاکستان نے باضابطہ طور پر ڈی نوٹیفائی کیا تھا۔
اس کے بعد پی ٹی آئی نے لاہور ہائی کورٹ میں ایک درخواست دائر کی تھی جس میں الیکشن کمیشن آف پاکستان کو ہدایت کی گئی تھی کہ وہ پانچ نئے اراکین صوبائی اسمبلی کو نوٹس بھیج کر ذاتی طور پر طلب کرے جس کے بعد ہائی کورٹ نے الیکشن کمیشن کو اس معاملے پر فیصلہ کرنے کے لیے 2 جون کی ڈیڈ لائن دی تھی۔
جمعرات کو اپنے فیصلے میں انتخابی نگران نے نوٹیفکیشن کو 17 جولائی کو ہونے والے 20 جنرل نشستوں پر ہونے والے ضمنی انتخابات تک یہ کہتے ہوئے روک دیا تھا کہ صوبائی اسمبلی کی جنرل نشستیں کم کر دی گئی ہیں۔
زینب عمیر نے آج دائر اپنی اپیل میں کمیشن کے فیصلے کی مخالفت کرتے ہوئے کہا کہ یہ ’غیر قانونی حکومت‘ کی طرف سے رکاوٹ ڈالنے کی کوشش ہے اور آئین کے آرٹیکل 224 کی خلاف ورزی ہے۔
قانون کے سیکشن 9 میں کہا گیا ہے کہ جب قومی اسمبلی یا صوبائی اسمبلی میں خواتین یا غیر مسلموں کے لیے مخصوص نشست کسی رکن کی موت، استعفیٰ یا نااہلی کی وجہ سے خالی ہوتی ہے، تو سیاسی جماعت کے رکن کی وجہ سے نشست خالی ہوئی ہے، اس کی جانب سے الیکشن کمیشن کو امیدواران کی داخل کردہ فہرست میں سے بلحاظ اگلے مقدم ترین شخص سے پر کیا جائے گا۔
درخواست گزار نے استدلال کیا کہ الیکشن کمیشن آف پاکستان آئینی ذمہ داریوں کو پورا کرنے میں ’مکمل طور پر ناکام‘ رہا ہے جیسا کہ قانون کے تحت تصور کیا گیا ہے اور اس نے ’متعصبانہ اور من مانا‘ فیصلہ دیا۔
انہوں نے کہا کہ مذکورہ بالا حکم دائرہ اختیار کا ایک غلط مفروضہ ہے کیونکہ الیکشن کمیشن آف پاکستان کے پاس پاکستان کی معزز عدالتوں کی طرح آئین کی تشریح کرنے کا اختیار نہیں ہے۔
درخواست میں مزید انکشاف کیا گیا کہ درخواست کی سماعت کے دوران انتخابی ادارے نے اٹارنی جنرل آف پاکستان کے ساتھ ساتھ پنجاب کے ایڈووکیٹ جنرل کو بھی طلب کیا تھا۔
ان کا کہنا تھا کہ الیکشن کمیشن آف پاکستان قانون کی عدالت نہیں ہے اس لیے اسے کسی بھی صورت میں اٹارنی جنرل یا ایڈووکیٹ جنرل آف پنجاب کو طلب کرنے کا اختیار نہیں ہے کیونکہ وہ ماضی میں مسلم لیگ(ن) کے ایڈووکیٹ رہ چکے ہیں۔
اس کے بعد زینب عمیر نے عدالت سے درخواست کی کہ الیکشن کمیشن آف پاکستان کے حکم کو ایک طرف رکھ کر انصاف، مساوات اور منصفانہ فیصلے کے لیے مخصوص نشستوں کے لیے 5 منتخب/اعلان شدہ اراکین صوبائی اسمبلی کے لیے فوری طور پر نوٹیفیکیشن جاری کرنے کی ہدایت کی جائے۔
الیکشن کمیشن کا فیصلہ
گزشتہ روز جاری ہونے والے الیکشن کمیشن آف پاکستان کے حکم نامے میں کہا گیا تھا کہ پہلے تاثر کے نتیجے میں ہم اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ آئین میں فراہم کردہ متناسب نمائندگی کی اسکیم خواتین اور غیر مسلموں کے لیے خالی مخصوص نشستوں کو پر کرنے کے لیے لازمی ہے، آئین کے آرٹیکل 106 کی روح کے پیش نظر ہم پنجاب کی صوبائی اسمبلی کی 20 جنرل نشستوں پر ہونے والے ضمنی انتخابات کے نتائج تک خالی مخصوص نشستوں کو پر کرنے کے عمل کو موخر کرنا مناسب سمجھتے ہیں۔
حکم نامے میں کہا گیا ہے کہ کسی رکن کی موت، استعفیٰ یا نااہلی کی وجہ سے خالی ہونے والی مخصوص نشستیں پارٹی لسٹ کے مطابق اگلے رکن کے ذریعے پُر کی جائیں گی، مذکورہ کیس پہلے تاثر کا تھا کیونکہ ایک پارلیمانی پارٹی کی جنرل نشستوں کے 20 ارکان کو آئین کے آرٹیکل 63-اے کے تحت نااہل اور ڈی سیٹ کیا گیا تھا جس نے پنجاب اسمبلی میں اس پارٹی کی جنرل نشستوں کی تعداد کو کافی حد تک کم کر دیا تھا۔
انہوں نے یہ بھی نشاندہی کی کہ سپریم کورٹ نے بہت سے مواقع پر یہ کہا ہے کہ تکرار کو مقننہ سے منسوب نہیں کیا جا سکتا اور نہ ہی آئینی شقوں کی تشریح کی جا سکتی ہے تاکہ کسی بھی شق کو بے کار یا غیر مؤثر بنایا جا سکے۔
منحرف اراکین صوبائی اسمبلی ڈی سیٹ
پی ٹی آئی کے 25 منحرف اراکین کے ووٹ حمزہ کے وزیر اعلیٰ منتخب ہونے کے لیے انتہائی اہم تھے اور ان اراکین نے ان کے انتخاب میں مدد کی تھی، حمزہ شہباز نے کل 197 ووٹ حاصل کیے جبکہ سادہ اکثریت کے لیے 186 ووٹ درکار تھے۔
منحرف قانون سازوں میں راجا صغیر احمد، ملک غلام رسول سنگھا، سعید اکبر خان، محمد اجمل، عبدالعلیم خان، نذیر احمد چوہان، محمد امین ذوالقرنین، ملک نعمان لنگڑیال، محمد سلمان، زوار حسین وڑائچ، نذیر احمد خان، فدا حسین اور دیگر شامل تھے۔ زہرہ بتول، محمد طاہر، عائشہ نواز، ساجدہ یوسف، ہارون عمران گل، عظمیٰ کاردار، ملک اسد علی، اعجاز مسیح، محمد سبطین رضا، محسن عطا خان کھوسہ، میاں خالد محمود، مہر محمد اسلم اور فیصل حیات شامل ہیں۔
20 مئی کو انتخابی نگراں ادارے نے ان قانون سازوں کو ڈی سیٹ کرنے کا حکم جاری کیا تھا جس میں کہا گیا تھا کہ وہ آئین کے آرٹیکل 63-اے کے تحت پارٹی سے الگ ہو گئے ہیں جو اراکین اسمبلی کو وزیر اعظم، وزیراعلیٰ کے خلاف الیکشن، عدم اعتماد کے ووٹ، ایک آئینی ترمیمی بل اور ایک منی بل کے سلسلے میں پارٹی کے خلاف ووٹ دینے سے روکتا ہے۔