پروسیجر ایکٹ کیس: اگر غلطیاں سپریم کورٹ میں ہیں توپارلیمنٹ کی بھی ہیں، جسٹس یحییٰ آفریدی

پریکٹس اینڈپروسیجرایکٹ کیخلاف درخواستوں پر سماعت چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں فل کورٹ کر رہا ہے۔

اٹارنی جنرل منصور عثمان نے دلائل کا آغاز کیا تو چیف جسٹس پاکستان نے ریمارکس دیے کہ آپ Last but not the least ہیں۔

اٹارنی جنرل کا کہنا تھا کیس قابل سماعت ہونے پر دلائل دےچکا ہوں، تین سوالات اٹھائے گئے تھےجن کا جواب دوں گا، میں آرٹیکل191 اور عدلیہ کی آزادی کی بات کروں گا، پارلیمنٹ کے ماسٹر آف روسٹر ہونے کے سوال پر دلائل دوں گا، اپیل کا حق دیے جانے پر دلائل دوں گا اور فل کورٹ کےفیصلے کے خلاف اپیل کے سوال پر بھی دلائل دوں گا۔

منصور عثمان کا کہنا تھا آرٹیکل 14، 20، 22 اور 28 میں درج بنیادی حقوق پر عمل قانون کے مطابق ہوتا ہے، رائٹ ٹو پرائیویسی کو قانون کے ذریعے ریگولیٹ کیاگیا ہے، آرٹیکل 191 سے پارلیمنٹ کو قانون سازی کا اختیار ملتا ہے۔

چیف جسٹس نے کہا کیا آپ یہ کہہ رہےہیں کہ آرٹیکل 191میں لاء کا لفظ باقی آئینی شقوں میں اس لفظ کے استعمال سے مختلف ہے؟

یاد رہے کہ گزشتہ روز ہونے والی سماعت کے دوران ایم کیو ایم پاکستان کے وکیل کے دلائل کے دوران چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ اور جسٹس منیب کے درمیان نوک جھونک بھی دیکھی گئی تھی

اپنا تبصرہ بھیجیں