حکومت نے پڑوسی ملک افغانستان کے ساتھ دوطرفہ تجارت کے لیے ویزا پالیسی میں نرمی کا فیصلہ کیا ہے اور امید ظاہر کی کہ اس فیصلے سے دونوں ممالک کی معیشت کو بہتر کرنے میں مدد ملے گی۔
رپورٹ کے مطابق یہ فیصلہ منگل کو وزیر اعظم شہباز شریف کی زیر صدارت وفاقی کابینہ کے اجلاس میں کیا گیا۔
وزیر اعظم آفس کے مطابق شہباز شریف نے متعلقہ حکام کو ہدایت کی کہ افغانستان سے ٹرانسپورٹرز کو 6 ماہ کے ملٹی انٹری ویزے جاری کیے جائیں، انہوں نے افغان بین الوزارتی رابطہ سیل کی طرف سے پیش کی گئی تمام تجاویز کی منظوری دے دی، کابینہ نے بیرون ملک سفارت خانوں کو ہدایت کی کہ افغان ویزا درخواستوں کا موجودہ قومیت اور پاسپورٹ کی بنیاد پر جائزہ لیا جائے۔
اس کے علاوہ کابینہ نے ہدایت کی کہ آن لائن ویزا سسٹم میں ورک ویزا کیٹیگری کے تحت ذیلی قسم متعارف کروائی جائے، یہ بھی فیصلہ کیا گیا کہ ابتدائی طور پر چھ ماہ میں ایک سے زیادہ ویزے جاری کیے جائیں گے اور وزارت داخلہ کو اس مدت میں ایک سال تک توسیع کا اختیار ہوگا۔
ویزا درخواستوں کے ساتھ درکار دستاویزات میں درخواست دہندہ کی تصویر، پاسپورٹ، ٹرانسپورٹ کمپنی کی رجسٹریشن اور ملازمت کا خط شامل ہے، اجلاس میں ڈرائیور، ٹرانسپورٹرز، ہیلپر وغیرہ کے ویزوں کو سیکیورٹیز اینڈ ایکسچینج کمیشن آف پاکستان (ایس ای سی پی) اور بورڈ آف انویسٹمنٹ کے سفارشی خطوط کی شرط سے استثنیٰ دیا گیا ہے۔
وفاقی کابینہ کے مطابق افغانستان کے ساتھ دوطرفہ تجارت کو فروغ دینے کے لیے یہ فیصلے کیے گئے ہیں اور ویزا پالیسی میں ترامیم کی گئی ہیں۔
کابینہ اجلاس کے بعد پریس کانفرنس میں وزیر اطلاعات مریم اورنگزیب نے کہا کہ افغانیوں کے لیے ویزا پالیسی کا جائزہ وزارت داخلہ کے افغان بین الوزارتی سیل نے ایپکس کمیٹی کے اجلاس کے دوران لیا جس میں دفتر خارجہ، نادرا اور بورڈ آف پاکستان کے نمائندے بھی شامل تھے۔
وزیراعظم کے مشیر برائے امور کشمیر قمر زمان کائرہ کے ہمراہ مریم اورنگزیب نے کہا کہ نظرثانی شدہ پالیسی کے تحت بیرون ملک پاکستانی مشنز افغانوں کی ویزا درخواستوں پر کارروائی ان کے ملک کے بجائے ان کے موجودہ پاسپورٹ اور قومیتوں کی بنیاد پر کریں گے۔
انہوں نے مزید کہا کہ کابینہ نے تاجروں کے لیے کاروبار میں آسانی کا تسلسل یقینی بنانے کے لیے ایک کمیٹی بھی تشکیل دی ہے۔
اس کے علاوہ اقتصادی رابطہ کمیٹی کی طرف سے منظور شدہ اور کابینہ کی توثیق کردہ تکنیکی ضمنی گرانٹس میں 6 ایوی ایشن اسکواڈرن کی مختلف ضروریات کے لیے 12 کروڑ 58 لاکھ روپے، نیشنل کمانڈ اینڈ آپریشن سینٹر کی تشہیری مہم کے لیے چار کروڑ روپے، وزیراعظم کے امدادی پیکج کے تحت جاں بحق ہونے والے/شہدا کے لواحقین کے لیے 1.22 ارب روپے، سیاسی جماعت اور دیگر کی جانب سے آئندہ احتجاج یا دھرنے کے دوران امن و امان کی صورتحال کو برقرار رکھنے کے لیے آلات کے ساتھ کیمروں کی خریداری کے لیے 3 کروڑ 93 لاکھ 60 ہزار روپے رکھے گئے ہیں۔
ایک سوال کے جواب میں وزیر اطلاعات نے کہا کہ ایسوسی ایٹڈ پریس آف پاکستان (اے پی پی) ملازمین کی تنخواہوں کے اسکیلز اور ریگولرائزیشن کا معاملہ پرانا ہے، یہ صرف اے پی پی کا مسئلہ نہیں بلکہ تمام کارپوریشنز کا بھی مسئلہ ہے جس کا فیصلہ حکومت کی پالیسی کے مطابق کیا جائے گا۔
سابق وزیر خزانہ اسحٰق ڈار کی وطن واپسی کے حوالے سے میڈیا رپورٹس کے بارے میں ایک سوال کے جواب میں مریم اورنگزیب نے دعویٰ کیا کہ اسحٰق ڈار کے خلاف عدالتی مقدمات جعلی ہیں اور پاکستان تحریک انصاف کے سابقہ دور حکومت کے سیاسی انتقام کا نتیجہ ہیں، سابق وزیر خزانہ کو ملک واپس آنے کا پورا حق ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ اسحٰق ڈار نے پاکستان کے لیے خدمات انجام دی ہیں اور ملک کی ترقی میں ان کے خدمات سے کوئی انکار نہیں کر سکتا۔