منی لانڈرنگ کیس میں نامزد وزیر اعظم شہباز شریف اور ان کے صاحبزادے وزیر اعلیٰ پنجاب حمزہ شہباز پر فردِ جرم عائد کرنے کی کارروائی ایک بار پھر تاخیر کا شکار ہوگئی۔
شہباز شریف اور حمزہ شہباز کے خلاف 16 ارب روپے منی لانڈرنگ کی سماعت کے دوران وزیر اعظم کی جانب سے استثنیٰ کی درخواست دائر کی گئی تھی۔
لاہور کی خصوصی عدالت نے گزشتہ ماہ ہونے والی سماعت میں شہباز شریف اور حمزہ شہباز کو ہدایت دی تھی کہ 14 مئی کو ہونے والی آئندہ سماعت میں اپنی پیشی کو یقینی بنائیں۔
سماعت کے آغاز پر وزیر اعظم شہباز شریف کے وکیل محمد امجد پرویز نے اپنے مؤکل کے استثنیٰ کی درخواست جمع کروائی۔شہباز شریف کے وکیل امجد پرویز نے عدالت کو بتایا کہ ان کے مؤکل گزشتہ روز میڈیکل چیک اپ کے لیے برطانیہ گئے ہیں تاہم ڈاکٹر سے ساڑھے 12 بجے سے قبل کی اپوائمنٹ نہیں مل سکی۔
شہباز شریف کینسر سے صحتیاب ہونے والے کمر کے درد کے دائمی مریض ہیں اور سابق حکومت کی جانب سے باہر جانے کی اجازت نہ دینے پر ان کا چیک اب کافی عرصے سے تاخیر کا شکار ہے۔
درخواست میں مزید کہا گیا کہ شہباز شریف کا واپسی میں متحدہ عرب امارات جانے کا بھی امکان ہے جہاں وہ ملک کے صدر شیخ خلیفہ بن زید النہیان کے انتقال پر تعزیت کریں گے۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ درخواست گزار کی غیر حاضر بدنیتی پر مبنی ہے نہ جان بوجھ کر یہ عمل کیا گیا ہے۔
خصوصی عدالت کے جج نے کہا کہ آج پھر کارروائی آگے نہیں بڑھ سکے گی، شیڈول کی تاریخ اوپر نیچے کر دیتے ہیں آج معمول کی تاریخ نہیں تھی۔
خصوصی عدالت کے فاضل جج اعجاز الحسن اعوان نے حمزہ شہباز اور شہباز شریف کی ضمانت میں توسیع کرتے ہوئے آئندہ سماعت 21 مئی تک ملتوی کردی۔
عدالتی کارروائی
دورانِ سماعت ایف آئی اے کے وکیل فاروق باجوہ کا کہنا تھا کہ میڈیکل گراؤنڈ پر شہباز شریف کی حاضری معافی کی درخواست پر کوئی اعتراض نہیں ہے لیکن مقدمے کی کارروائی کے لیے تمام ملزمان کا عدالت موجود ہونا ضروری ہوتا ہے۔
ایف آئی اے کے وکیل نے عدالت کو آگاہ کیا کہ میری آج عدالت میں پہلی پیشی ہے جس پر جج نے ریمارکس دیے کہ میری عدالت کا ریکارڈ ہے ایک دن میں چالان کی کاپی فراہم ہوتی ہے اسکے بعد فرد جرم عائد کی جاتی ہے۔
وزیر اعظم کے وکیل امجد پرویز نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ منی لانڈرنگ کیس میں جن کمپنیز کا ذکر کیا گیا وہ ساری ایس ای سی پی کے ساتھ رجسٹرڈ ہیں، شہباز شریف ان کمپنیوں کے کبھی ڈائریکٹر یا شئیر ہولڈر نہیں رہے ان کے ذاتی اکاؤنٹ میں ایک بھی روپیہ موصول نہیں ہوا، سابق دور حکومت میں بغیر تفتیش کے یہ مقدمہ درج کیا گیا۔
ان کا کہنا تھا کہ جن گواہوں نے بیانات دیے ان میں سے کسی نے جرم کے ارتکاب کے حوالے سے نہیں کہا ہے جبکہ سابق وزیر داخلہ نے اپنے سامنے بیٹھ کر گواہوں کے بیانات لکھوائے، جب گواہان کے بیان ریکارڈ کیے گئے اس وقت شہباز شریف اور حمزہ شہباز جیل میں تھے۔
عدالت نے ریمارکس دیے کہ ایف آئی آر میں کیش بوائے کا ذکر ہے، اس کو دیکھیں، جس پر شہباز شریف کے وکیل نے بتایا کہ ایف آئی آر میں 25 ارب روپے کی بات کی گئی ہے۔
انہوں نے کہا کہ الزام لگایا گیا ہے کہ مختلف اکاؤنٹس کے ذریعے منی لانڈرنگ ہوئی ہے، اس دور حکومت جس میں وزیر داخلہ اس کیس کی فائل سامنے رکھ کر پریس کانفرنس کرتے تھے شہباز شریف کے خلاف ایسی کوئی چیز ریکارڈ پر نہیں آئی جس سے کیس ثابت ہونے کا امکان بھی ہو۔
ان کا کہنا تھا کہ ایف آئی اے کے ریکارڈ اور چالان میں حقائق نہیں لیکن خواہشات ضرور ہیں، سابق حکومت کے کہنے پر ایف آئی اے نے بے بنیاد اور جھوٹا کیس بنایا، یہ کیس سیاسی انجینئرنگ کے لیے بنایا گیا۔
شہباز شریف کے وکیل نے دعویٰ کیا کہ ایف آئی اے نے بدنیتی کی بنیاد پر کیس بنا کر عدالت کو گمراہ کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔
انہوں نے کہا کہ معاملے پر شہباز شریف اور حمزہ شہباز کا میڈیا ٹرائل کیا گیا، ملازمین اور کمپنیوں کے اکاؤنٹس سے شہباز شریف کا کوئی تعلق نہیں ہے، مسرور انور ایک ملازم تھا جو کیش نکلواتا تھا لیکن پاکستان کے کس قانون کے تحت کیش نکلوانا جرم ہے ؟
وکیل نے کہا کہ نیب بھی اسی معاملے پر تفصیلی تحقیقات کر کے ریفرنس دائر کر چکا ہے، مقصود چپڑاسی کی بات کریں تو ایک ملزم ایک الزام میں کتنی بار جیل جائے گا، مقصود چپڑاسی کا نام نیب کی ریمانڈ کی درخواست میں لکھا گیا تھا۔
وکیل امجد پرویز نے مزید کہا کہ نیب نے چھان بین کے باوجود کہیں نہیں کہا مسرور انور نے رقم نکلوا کر شہباز شریف کو دی ،مقصود چپڑاسی اور مسرور انور کا نام تو جسمانی ریمانڈ کی دستاویزات میں بھی تھا۔
قبل ازیں ایف آئی اے نے بینکنگ کورٹ میں ایف آئی اے نے چالان پیش نہیں کیاجب خطرہ ہوا کہ عدالت کارروائی کرے گی تو عبوری چالان جمع کروا دیا گیا اس سے قبل وفاقی ادارے کی جانب سے سات ماہ تک کوئی چالان جمع نہیں کروایا گیا۔
انہوں نے کہا کہ ایف آئی اے پاس معاملے سے متعلق کوئی شہادت موجود نہیں تھی اسی وجہ سے وہ تاخیری حربے استعمال کرتے رہے، یہ مقدمہ صرف میڈیا ٹرائل کےلیے تھا تاکہ وزرا ٹی وی پر بیٹھ کر میڈیا ٹرائل کرتے تھے۔
ان کا کہنا تھا کہ سابق حکومت کا ایک ہی مقصد تھا کہ شہباز شریف اور حمزہ شہباز ایک ہی مقدمہ میں مختلف عدالتوں میں پیش ہوں اور ایف آٸی آر کردار کشی اور سیاسی بیانیے پر کاٹی گئیں۔
وکیل نے مزید کہا کہ سلمان شہباز بزنس کرتے تھے اور پاکستان کے کسی قانون کے تحت بزنس کرنا جرم نہیں ہے جس پر عدالت نے استفسار کیا کہ سلمان شہباز جو اشتہاری ہے، جس پر وکیل نے جواب دیا کہ جی لیکن یہ بھی دیکھنا ہے کہ سلمان شہباز کو کس نے اشتہاری قرار دیا اس عدالت نے تو اشتہاری ڈکلیئر نہیں کیا ہے۔
وکیل نے دلائل جاری رکھتے ہوئے کہا کہ بے نامی ترسیلات پاکستان کے کسی قانون کی جرم نہیں لکھا گیا،2017 میں بے نامی ٹرانزیکشن ایکٹ سامنے آیا تھا اس سے پہلے بے نامی ترسیلات جرم نہیں تھا۔
جج نے استفسار کیا کہ ایک کلرک کیا تجارت کرتا ہے؟ وہ چینی کا کاروبار کھول کر بیٹھا ہے اسکی کیا وضاحت ہے، کلرک یہ کہہ کر بینک اکاؤنٹ کھلوائے کہ اسکا چینی کا کاروبار ہے اسکی کیا وضاحت ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ گنے کا کاروبار کرنے والے بھی اکاؤنٹ کھلواتے ہوئے یہی کہتے ہیں یہ کوئی جرم نہیں ہے،ایف آئی اے والے جعلی اکاؤنٹس کی بات کرتے ہیں۔
شہباز شریف کے وکیل نے عدالتی استفسار پر بات کرتے ہوئے کہا کہ اگر جعلی اکاؤنٹس کی بات ہے تو یہ کیس ایف آئی اے کے دائرہ اختیار میں نہیں آتا، ایک ہی کیس میں ایک ہی الزام میں دو بار گرفتاری نہیں ہو سکتی۔
عدالت نے شہباز شریف اور حمزہ شہباز سمیت دیگر ملزمان پر فرد جرم کی کارروائی مؤخر کرتے ہوئے شہباز شریف کے وکیل کو کیس سے متعلق بحث مکمل کرنے کی ہدایت کر دی۔
دریں اثنا، ایف آئی اے کے وکیل نے کیس کی تیاری کے لیے عدالت سے مہلت طلب کرلی جس پر عدالت نے ایف آئی کے وکیل سے استفسار کیا کہ کیس کی تفتیش مکمل ہو چکی ہے یا چل رہی ہے۔
عدالتی استفسار پر ایف آئی اے کے وکیل نے کا کہنا تھا کہ مجھے کیس کے فیکٹس کے بارے میں ابھی مکمل نہیں معلومات ہے۔
خصوصی عدالت نے شہباز شریف کی حاضری سے معافی کی درخواست منظور کرتے ہوئے وزیر اعظم اور ان کے صاحبزادے حمزہ شہباز کی عبوری ضمانت میں 21 مئی تک توسیع کر دی۔
منی لانڈرنگ کیس
شہباز شریف اور حمزہ شہباز کو شوگر اسکینڈل میں منی لانڈرنگ کے کیس کا سامنا ہے، ایف آئی اے نے نومبر 2020 میں ان کے خلاف پاکستان پینل کوڈ، کرپشن کی روک تھام ایکٹ اور انسداد منی لانڈرنگ ایکٹ کی دفعات کے تحت مقدمہ درج کیا تھا۔
شہباز شریف پر الزام ہے کہ انہوں نے اپنے بیٹوں حمزہ شہباز اور سلیمان شہباز کو ان کی آمدنی کے نامعلوم ذرائع سے مال جمع کرنے میں مدد دی تھی۔
ایف آئی اے نے 13 دسمبر 2021 کو شہباز شریف اور حمزہ شہباز اور دیگر ملزمان کے خلاف 16 ارب روپے کی منی لانڈرنگ کا چالان بینکنگ عدالت میں جمع کروایا تھا اور دنوں کو مرکزی ملزم نامزد کر دیا تھا۔
ایف آئی اے کی جانب سے جمع کرایے گئے 7 والیمز کا چالان 4 ہزار سے زائد صفحات پر مشتمل ہے جس میں 100 گواہوں کی لسٹ بھی جمع کرا دی تھی اور کہا تھا کہ ملزمان کے خلاف 100 گواہ پیش ہوں گے۔
چالان میں کہا گیا تھا کہ تحقیقاتی ٹیم نے 28 بے نامی بینک اکاؤنٹس کا سراغ لگایا جو 2008 سے 2018 تک شہباز شریف فیملی کے چپراسیوں، کلرکوں کے ناموں پر لاہور اور چنیوٹ کے مختلف بینکوں میں بنائے گئے۔
ایف آئی اے کے مطابق 28 بے نامی اکاؤنٹس میں 16 ارب روپے، 17 ہزار سے زیادہ کریڈٹ ٹرانزیکشنز کی منی ٹریل کا تجزیہ کیا اور ان اکاؤنٹس میں بھاری رقم چھپائی گئی جو شوگر کے کاروبار سے مکمل طور پر غیر متعلق ہیں اور اس میں وہ رقم شامل ہے جو ذاتی حیثیت میں شہباز شریف کو نذرانہ کی گئی تھی۔
چالان میں کہا گیا کہ اس سے قبل شہباز شریف (وزیر اعلیٰ پنجاب 1998) 50 لاکھ امریکی ڈالر سے زائد کی منی لانڈرنگ میں براہ راست ملوث تھے، انہوں نے بیرون ملک ترسیلات (جعلی ٹی ٹی) کا انتظام بحرین کی ایک خاتون صادقہ سید کے نام اس وقت کے وفاقی وزیر اسحٰق ڈار کی مدد سے کیا تھا۔
ایف آئی اے نے کہا تھا کہ ’یہ چالان شہباز شریف، حمزہ شہباز اور سلیمان شہباز کو مرکزی ملزم ٹھہراتا ہے جبکہ 14 بے نامی کھاتے دار اور 6 سہولت کاروں کو معاونت جرم کی بنیاد پر شریک ملزم ٹھہراتا ہے۔
چالان میں کہا گیا تھا کہ شہباز شریف اور حمزہ شہباز دونوں ہی 2008 سے 2018 عوامی عہدوں پر براجمان رہے تھے۔