وزیر اعلیٰ کے انتخاب کی منصوبہ بندی کیلئے پنجاب اسمبلی کا اجلاس، حکومت کا بائیکاٹ

وزیر اعلیٰ کے انتخاب کی منصوبہ بندی کے لیے پنجاب اسمبلی کی بزنس ایڈوائزری کمیٹی کا اجلاس حکومتی نمائندوں کے بائیکاٹ کے باعث نہ ہو سکا جبکہ اپوزیشن، حکومت کی جانب سے عدالتی احکامات کی اس مبینہ خلاف ورزی کے خلاف سپریم کورٹ سے رجوع کرنے پر غور کر رہی ہے۔

رپورٹ کے مطابق پنجاب میں حکمراں اتحاد نے اجلاس کا بائیکاٹ کیا، اس کا دعویٰ ہے کہ یکم جولائی کو وزیر اعلیٰ کے انتخاب سے متعلق عدالت عظمیٰ کے فیصلے میں ڈپٹی اسپیکر کو اسمبلی کا اجلاس بلانے کا حکم دیا گیا تھا جبکہ اپوزیشن اس فیصلے کو وزیراعلیٰ کے انتخاب کے امیدواروں میں سے ایک ہونے کے باوجود اسپیکر چوہدری پرویز الہٰی کو اپنا عہدہ برقرار رکھنے اور ایوان کی کارروائی چلانے کی اجازت دینے سے متعلق خیال کرتی ہے۔

سپریم کورٹ کے جمعہ کے فیصلے کے اس حصے میں جس کی دونوں فریق الگ الگ تشریح کر رہے ہیں، اس میں کہا گیا ہے کہ ’جس اجلاس میں وزیر اعلیٰ کے انتخاب کے لیے رائے شماری ہوگی اس کی صدارت اسمبلی کے ڈپٹی اسپیکر کریں گے، اسپیکر/ڈپٹی اسپیکر آج سے ایک ہفتے کے اندر تمام قانونی اور ضابطہ کار کو پورا کرنے کے بعد اس سلسلے میں اجلاس بلانے کا باضابطہ نوٹی فکیشن جاری کریں گے۔اسمبلی کے اسپیکر چوہدری پرویز الہٰی نے سپریم کورٹ کے حکم کے مطابق 22 جولائی کو ہونے والے وزیر اعلیٰ کے انتخاب کا ضابطہ اخلاق طے کرنے کے لیے کمیٹی کا اجلاس طلب کیا تھا۔

اجلاس میں مدعو کیے گئے افراد میں شامل حکمراں مسلم لیگ (ن) کے رکن صوبائی اسمبلی خلیل طاہر سندھو کا کہنا تھا کہ انہوں نے اجلاس کا بائیکاٹ کیا کیونکہ یہ اجلاس غیر قانونی اور عدالت عظمیٰ کے فیصلے کی خلاف ورزی تھا، سپریم کورٹ نے اپنے فیصلے میں یہ ٹاسک ڈپٹی اسپیکر دوست محمد مزاری کو سونپا تھا، انہوں نے دعویٰ کیا کہ دوست محمد مزاری کو اجلاس میں مدعو ہی نہیں کیا گیا۔

تاہم پیر کی شام پنجاب اسمبلی سیکریٹریٹ کی جانب سے جاری کردہ نوٹی فکیشن کے مطابق دوست محمد مزاری، صوبائی وزرا سید حسن مرتضیٰ، سردار اویس لغاری اور ملک احمد خان، اپوزیشن لیڈر سبطین خان، بشارت راجا، چوہدری ظہیر، پی ٹی آئی کے پارلیمانی لیڈر میاں محمود الرشید اور مسلم لیگ (ن) کے ایم پی اے ملک ندیم کامران اور خلیل طاہر سندھو کو اجلاس میں مدعو کیا گیا تھا۔

پی پی پی کے پارلیمانی لیڈر حسن مرتضیٰ نے کہا کہ انہوں نے ایڈوائزری کمیٹی کا بائیکاٹ کیا کیونکہ وہ اپریل سے اسپیکر کے طرز عمل کی وجہ سے چوہدیر پرویز الہٰی کو ایوان کا نگراں نہیں سمجھتے۔

انہوں نے کہا کہ چوہدری پرویز الہٰی قانونی لحاظ سے اسمبلی کے اسپیکر ہو سکتے ہیں لیکن خاص طور پر 16 اپریل کو وزیر اعلیٰ کے عہدے کے لیے ہونے والے انتخاب کے دوران ان کے طرز عمل کو دیکھ کر میں نہیں سمجھتا کہ وہ ایوان کے حقیقی نگران ہیں۔

پنجاب کے سابق وزیر قانون اور پی ٹی آئی کے ایم پی اے راجا بشارت نے اسمبلی کی کارروائی کے دوران کہا کہ انہوں نے حمزہ شہباز کو 22 جولائی تک وزیراعلیٰ کے طور پر قبول کر لیا ہے۔

انہوں نے دعویٰ کیا کہ اسپیکر کے اختیارات الیکشن تک چوہدری پرویز الہٰی کے پاس ہیں، پرویز الہٰی وزیراعلیٰ کے عہدے کے لیے حمزہ شہباز کے مدمقابل امیدوار تھے۔

انہوں نے کہا کہ سپریم کورٹ کے فیصلے کی خلاف ورزی کرتے ہوئے کمیٹی کے اجلاس میں شامل نہ ہونے پر وہ حکومت کے خلاف عدالت سے رجوع کر سکتے ہیں۔

اسپیکر چوہدری پرویز الہٰی نے ایوان کو بتایا کہ قانونی ٹیم جلد ہی اس معاملے پر عدالت سے رجوع کرے گی اور اپوزیشن لیڈر سبطین خان کو آئندہ ضمنی انتخابات کے ضابطہ اخلاق کی مبینہ خلاف ورزیوں پر الیکشن کمیشن کے مقامی دفتر کو درخواست بھیجنے کی تجویز بھی دی۔

دوسری جانب اسمبلی سیکریٹریٹ کے نوٹی فکیشن کے مطابق اسپیکر نے وزیر اعلیٰ کے انتخاب کے لیے پنجاب اسمبلی کا 40

یہاں یہ بات دلچسپ ہے کہ منگل کی شام ڈپٹی اسپیکر دوست محمد مزاری نے 22 جولائی کو اسمبلی اجلاس بلانے کا الگ نوٹی فکیشن بھی جاری کیا۔

قائم مقام سیکریٹری عامر حبیب کی جانب سے جاری کردہ نوٹی فکیشن میں کہا گیا کہ دوست محمد مزاری نے 30 جون کے لاہور ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ کے یکم جولائی کو وزیر اعلیٰ کے انتخاب کے لیے دوسری رائے شماری کے حکم کی روشنی میں یہ قدم اٹھایا۔

یہ پیش رفت بھی ان واقعات کی عکاسی کرتی ہے جو گزشتہ ماہ دیکھے گئے جب اسپیکر پرویز الہٰی نے پنجاب حکومت کو صوبائی بجٹ ایوان میں پیش کرنے کی اجازت نہیں دی، جس کے بعد گورنر کے جاری کردہ آرڈیننس کے ذریعے اجلاس کو ملتوی کرنے کرکے ایوان اقبال میں بجٹ اجلاس بلایا گیا۔

گورنر کی جانب سے اجلاس طلب کیے جانے کے بعد اسپیکر نے اپوزیشن جماعت پی ٹی آئی کی ریکوزیشن پر نیا اجلاس بھی طلب کر لیا اور دونوں اجلاسوں کی کارروائی ساتھ ساتھ ہوئی تھی۔

واں اجلاس 22 جولائی کو شام 4 بجے طلب کرلیا ہے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں