وزیراعظم شہباز شریف نے اپنی سربراہی میں وفاقی وزرا، کاروباری شخصیات اور ماہرین پر مشتمل 21 رکنی اقتصادی مشاورتی کونسل تشکیل دے دی۔
وزارت خزانہ کی جانب سے جاری نوٹیفکیشن کے مطابق وزیراعظم اقتصادی مشاورتی کونسل کے چیئرمین ہوں گے اور اس میں نجی شعبے سے بھی ارکان کو شامل کیا گیا ہے۔نوٹیفکیشن کے مطابق کونسل میں شامل حکومتی ارکان میں سابق وزیراعظم شاہد خاقان عباسی، وفاقی وزیر منصوبہ بندی احسن اقبال، وزیر خزانہ مفتاح اسمٰعیل، وزیراطلاعات مریم اورنگ زیب، سلیم مانڈوی والا، عائشہ غوث پاشا، مصدق ملک شامل ہیں۔
وزیراعظم کی تشکیل کردہ اقتصادی مشاورتی کونسل کے دیگر اراکین میں طارق پاشا، میاں منشا، محمد علی طبہ، عارف حبیب، ڈاکٹر عاصم حسین، عاطف باجوہ، احسن فرید، اورنگ زیب، وقار احمد، سلمان احمد، شہزاد سلیم، رحمٰن نسیم، مصدق ذوالقرنین، ڈاکٹر اعجاز نبی شامل ہیں۔
نوٹیفکیشن کے مطابق اقتصادی مشاورتی کونسل کے ٹی او آرز اور دائرہ کار بھی جاری کردیا گیاہے، جس کے تحت اقتصادی مشاورتی کونسل اقتصادی پالیسیوں کا جائزہ لے گی۔
اقتصادی مشاوتی کونسل قلیل مدتی میکرو اکنامک استحکام کے لیے تجاویز دے گی اور اس کے علاوہ اسٹرکچرل اصلاحات کے لیے بھی تجاویز دے گی۔
وزارت خزانہ نے بتایا کہ اقتصادی مشاورتی کونسل کا اجلاس ہفتہ وار بنیادوں پر ہوگا، کونسل ملک کی مجموعی معاشی صورت حال کا جائزہ لے گی اور معیشت کی بہتری کے لیے اقدامات تجویز کرے گی۔
نوٹیفکیشن کے مطابق اقتصادی مشاورتی کونسل کے تحت ذیلی کمیٹیاں تشکیل دی جائیں گی۔
قبل ازیں وزیراعظم شہباز شریف نے اتحادی جماعتوں کے ووٹ کی بدولت قومی اسمبلی میں وزیراعظم منتخب ہونے کے بعد اپنی پہلی تقریر میں ملک کی معشیت بہتر بنانے کے لیے کام کرنے کا عزم ظاہر کیا تھا۔
انہوں نے کہا تھا کہ اگر پاکستان کی معشیت کو پروان چڑھانا ہے، جمہوریت اور ترقی کو آگے بڑھانا ہے تو ڈیڈلاک نہیں ڈائیلاگ کی ضرورت ہے، تقسیم نہیں تفہیم سے کام لینا ہوگا، نہ کوئی غدار تھا ہے نہ کوئی غدار ہے، ہمیں احترام کے ساتھ قوم بننا ہوگا۔
وزیر اعظم کا کہنا تھا کہ تبدیلی باتوں سے نہیں آتی، اگر باتوں سے تبدیلی آنی ہوتی تو پاکستان کی معیشت کا اتنا بُرا حال نہیں ہوتا، ملک کی معیشت انتہائی گھمبیر صورتحال سے دوچار ہے، باتوں سے تبدیلی آنی ہوتی تو ہم ایک ترقی یافتہ قوم بن چکے ہوتے۔
ان کا کہنا تھا کہ میں نے پی ٹی آئی کی حکومت کو میثاق معیشت کی پیش کش کی، انہوں نے ہماری پیشکش کو مسترد کیا، اگر ہماری بات مان لی جاتی تو پاکستان میں ترقی ہوتی اور اس کا کریڈٹ ان کو ملتا۔
انہوں نے کہا تھا کہ اگر ملک کی معیشت کو اپنے پاؤں پر کھڑا کرنا ہے تو محنت اور محنت کے سوا کوئی چارہ نہیں۔
شہباز شریف نے کہا تھا کہ اس وقت ملک میں انتہائی گھبیر صورتحال ہے، 60 لاکھ لوگ بے روزگار ہو چکے، کروڑوں لوگ خط غربت سے زندگی گزارنے پر مجبور ہوچکے، کھربوں روپے کے قرض لیے گئے لیکن ایک نیا منصوبہ شروع نہیں کیا گیا، آج تاریخ کا سب سے بڑا تجارتی خسارہ ہے، مہنگائی عروج پر ہے۔