نیشنل الیکٹرک پاور ریگولیٹری اتھارٹی (نیپرا) نے بجلی کی بڑے پیمانے پر بندش پر پاور کمپنیوں کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے سابق واپڈا ڈسٹری بیوشن کمپنیوں (ڈسکوز) کے لیے 2.86 روپے فی یونٹ اور کے الیکٹرک (کے ای) کو مارچ میں فروخت ہونے والی بجلی کے لیے تقریباً 44 ارب روپے کے مجموعی مالیاتی اثرات کے ساتھ 4.83 روپے فی یونٹ اضافی فیول لاگت ایڈجسٹمنٹ (ایف سی اے) کو حتمی شکل دے دی ہے۔
رپورٹ کے مطابق ڈسکوز اور کے ای دونوں کے لیے اضافی ایف سی اے کو نیپرا کے چیئرمین توصیف ایچ فاروقی کی زیر صدارت الگ الگ عوامی سماعتوں میں حتمی شکل دی گئی جنہوں نے کہا کہ یہ اضافہ دستیاب معلومات کی بنیاد پر کیا گیا ہے لیکن چند روز میں ڈیٹا اور شواہد کی مزید تصدیق کے بعد نوٹیفکیشن کے وقت اس میں قدرے فرق آسکتا ہے۔
باقاعدہ نوٹیفکیشن کے بعد نظرثانی شدہ نرخ مئی کے بلنگ مہینے میں صارفین سے وصول کیے جائیں گے اور اس سے ڈسکوز کے لیے تقریباً 29 ارب روپے، کے الیکٹرک کے لیے ساڑھے 7 ارب روپے اور فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) کو تقریباً ساڑھے 7 ارب روپے جنرل سیلز ٹیکس کی شکل میں اضافی ریونیو میں حاصل ہوں گے۔
نیپرا کے چیئرمین توصیف ایچ فاروقی اور رکن سندھ رفیق شیخ نے لوڈشیڈنگ کرنے پر پاور کمپنیوں سے اظہار برہمی کی اور وجوہات دریافت کیں۔
سینٹرل پاور پرچیزنگ ایجنسی (سی پی پی اے) کے سربراہ ریحان اختر نے تمام ڈسکوز کی جانب سے بات کرتے ہوئے عذر پیش کیا کہ گرمی کی شدت کے اضافے کے نتیجے میں بجلی کی طلب میں اضافہ ہوا ہے۔
توصیف ایچ فاروقی نے جواب دیتے ہوئے کہا کہ یہ کوئی جواز نہیں ہے، دنیا اتنی ترقی کرچکی ہے کہ آپ 3 ماہ قبل ہی موسم کی پیشین گوئی باآسانی کر سکتے ہیں۔
اس کے بعد ریحان اختر نے محکمہ موسمیات پر الزام عائد کرتے ہوئے کہا کہ وہ موسم کی درست پیشین گوئیاں فراہم نہیں کر رہا۔
رفیق شیخ نے کہا کہ موسم گرما پہلی بار نہیں آرہا، حیرت ہے کہ پاور پلانٹس کے لیے ایندھن کا انتظام کیوں نہیں ہے، انہوں نے افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ عوام بجلی کے بغیر گرمی میں انتہائی سخت حالات کا سامنا کر رہے ہیں اور ذمہ داران بچگانہ جوابات دے رہے ہیں۔
ریگولیٹر نے ہنگامی بنیادوں پر ایندھن کے انتظام پر زور دیا اور اس معاملے کو حکومت کے ساتھ بھی اٹھانے کا فیصلہ کیا۔
نیپرا نے کے ای کے لیے مارچ کے لیے 4.83 روپے فی یونٹ اضافی ایف سی اے کو حتمی شکل دی تاکہ 5.27 روپے اضافے کے لیے 8 ارب 60
سماعت کے دوران ایک سوال کے جواب میں، کے ای ٹیم نے بتایا کہ 190 ملین کیوبک فٹ فی یوم (ایم ایم سی ایف ڈی) گیس کی ضرورت کے مقابلے میں یوٹیلیٹی کو صرف 86 ایم ایم سی ایف ڈی حاصل ہو رہی ہے جس کا نتیجہ سپلائی میں کمی کے ساتھ ساتھ ایندھن کی زیادہ قیمت بھی ہے۔
اس نے وضاحت کی کہ ایندھن کی زیادہ قیمت کی وجہ فرنس آئل اور ایل این جی کی قیمتوں میں بالترتیب 10 فیصد اور 40 فیصد اضافہ ہے، اس کے علاوہ نیشنل گرڈ (سی پی پی اے) سے بجلی کی فراہمی کی قیمت میں 9 فیصد اضافہ ہوا۔
نیشنل پاور کنٹرول سینٹر (این پی سی سی) کے ایک عہدیدار نے اطلاع دی کہ اس وقت تقریباً ساڑھے 18 ہزار میگاواٹ بجلی پیدا ہو رہی ہے، جس سے تقریباً ساڑھے 3 ہزار میگاواٹ کا شارٹ فال رہ گیا ہے۔ سی پی پی اے نے تمام سابق واپڈا ڈسکوز کی جانب سے ایف سی اے میں 3.16 روپے فی یونٹ اضافے کی درخواست کی تھی تاکہ مارچ میں فروخت ہونے والی بجلی کے لیے تقریباً 32 ارب روپے اضافی فنڈز حاصل کیے جا سکیں۔
اس نے دعویٰ کیا کہ مارچ میں صارفین سے ایندھن کی حوالہ جاتی قیمت 6.23 روپے فی یونٹ وصول کی گئی لیکن اصل قیمت 9.4 روپے نکلی، اس لیے صارفین سے تقریباً 3.16 روپے فی یونٹ اضافی چارج کیا گیا۔
کروڑ روپے کے مطالبے کی بجائے تقریباً ساڑھے 7 ارب روپے اضافی فنڈز فراہم کیے جائیں۔