نیوزی لینڈ مسجد حملہ: پاکستانی نژاد سمیت دو افراد کو بہادری کا اعلیٰ ترین ایوارڈ

نیوزی لینڈ میں مارچ 2019 میں ایک مسجد پر حملے کے دوران اپنی جان پر کھیل کر دوسروں کو بچانے کے لیے پاکستانی نژاد نعیم راشد اور افغان نژاد عبدالعزیز کو بہادری کے اعلیٰ ترین اعزاز ‘نیوزی لینڈ کراس’ کے لیے منتخب کیا گیا ہے۔

یہ اعزاز مارچ 2019 میں نیوزی لینڈ کے کرائسٹ چرچ میں واقع مسجد پر دہشت گردانہ حملے کے دوران سفیدفاموں کی بالادستی کے ایک مسلح حامی کا مقابلہ کرنے پر دیے گئے ہیں۔ اس حملے میں 51 مسلمان نمازی ہلاک ہوگئے تھے۔

اس حملے کے دوران دوسروں کی جان بچانے کی کوشش میں پاکستانی نژاد نعیم راشد بھی مارے گئے تھے۔ انہیں اور ایک دیگر شخص عبدالعزیز کو فائرنگ کے دوران انتہائی خطرناک صورت حال کے باوجود بہادری اور انتہائی شجاعت کا مظاہر ہ کرنے کے لیے ملک کے اعلی ترین اعزاز  نیوزی لینڈ کراس سے نوازا گیا ہے۔

نیوزی لینڈ کی تاریخ میں یہ ایوارڈ صرف دو مرتبہ

نیوزی لینڈ کی وزیر اعظم جسینڈ آرڈرن نے کہا کہ یہ تمغہ اس سے قبل اب تک صرف دو بار دیا گیا ہے۔ اور یہ نیوزی لینڈ کے اعلی ترین فوجی اعزاز وکٹوریا کراس کا غیر عسکری مساوی اعزاز ہے۔

مزید آٹھ افراد بشمول دو پولیس افسران کو بھی بہادری کے تمغے دیے گئے ہیں جنہوں نے بندوق بردار حملہ آور برینٹن ٹیرنٹ کو اس وقت پکڑ لیا جب وہ ایک کار میں جائے وقوعہ سے فرار ہونے کی کوشش کر رہا تھا۔

 جیسنڈا آرڈرن نے کہا کہ اعزاز پانے والوں کے اقدامات نے شاید ہلاکتوں کی تعداد کو زیادہ ہونے سے روکا تھا۔ ان کا کہنا تھا، “نیوزی لینڈ کے ان باشندوں نے جس جرات کا مظاہرہ کیا وہ بے لوث اور غیر معمولی تھا، ان کے اس دن کیے گئے اقدامات ہمارے لیے دل کی گہرائیوں سے محترم ہیں اور ہم ان کے مشکور ہیں۔”

حملے کے دوران ہوا کیا تھا؟

نیم خود کار ہتھیاروں سے لیس ٹیرنٹ نے سب سے پہلے کرائسٹ چرچ کی النور مسجد میں جمعے کے نمازیوں پر حملہ کیا اور اس کے بعد وہ لِن ووڈ کی عبادت گاہ پہنچا اور جاتے جاتے قتل عام کے مناظر کو لائیو سٹریم کرتا رہا۔ مسلح حملہ آور کا نشانہ بننے والے تمام مسلمان تھے اور ان میں بچے، عورتیں اور بوڑھے شامل تھے۔

ٹیرنٹ نے جس وقت حملہ کیا اس وقت نعیم راشد مسجد النور میں تھے۔ کندھے میں گولی لگنے کے باوجود انہووں نے ٹیرنٹ کو گراکر اسے غیر مسلح کرنے کی کوشش کی تھی۔ اس دوران ٹیرنٹ نے راشد کو گولی ماردی جس سے وہ ہلاک ہوگئے۔ ٹیرنٹ نے ان کے بیٹے طلحہ کو بھی ہلاک کر دیا۔ لیکن حملہ آور کی توجہ ہٹانے کا سبب بننے والے راشد کے اقدامات نے کئی لوگوں کو جان بچانے کے لیے فرار ہونے کا موقع فراہم کردیا۔

اعزاز حاصل کرنے والے عبدالعزیز نے حملہ آور ٹیرنٹ کا سامنا اس وقت کیا جب وہ لن ووڈ کی طرف بڑھ رہا تھا۔ عبدالعزیز نے حملہ آور پر کریڈٹ کارڈ کی ادائیگی کرنے والی مشین پھینک ماری اور پھر اسے للکارا تاکہ وہ لن ووڈ جانے کے بجائے کار پارکنگ میں ان کا پیچھا کرے۔

عبد العزیز نے ٹیرنٹ کی طرف سے پھینکی گئی ایک خالی رائفل اس کے جانب تان لی جس کے بعد ٹیرنٹ ہتھیار میں کارتوس موجود ہونے کے خوف سے فرار ہو گیا۔

عبدالعزیز افغانستان میں پیدا ہوئے تھے لیکن وہ آسٹریلوی شہری ہیں اور سڈنی میں رہتے ہیں۔

نیوزی لینڈ کی ایک عدالت نے گزشتہ برس ٹیرنٹ کو عمر قید کی سزا سنائی تھی اور اس کی حرکت کو ‘بزدلانہ’اور ‘غیر انسانی ‘ قرار دیا تھا۔ ٹیرنٹ کو عمر قید کی سزا نیوزی لینڈ کی تاریخ میں پہلی مرتبہ دی گئی ہے۔

‘یہ ایوارڈ ہر امن پسند کے لیے ہے’

نعیم راشد کی بیوہ امبرین نعیم نے میڈیا سے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ ان کے شوہر نے پوری زندگی دوسروں کو اپنے اوپر ترجیح دی۔ “نعیم ایک بہادرشخص تھے، وہ بہت رحم دل اور محبت کرنے والے تھے۔ وہ اسلام کے حقیقی پیروکار تھے۔”

انہوں نے مزید کہا، “یہ اعزاز نہ صرف ان کے لیے ہے بلکہ نفرت کے خلاف کھڑا ہوجانے والے ہر ایک امن پسند شخص کے لیے ہے۔ یہ دہشت گردی کے تمام متاثرین کے لیے ہے۔ صرف کرائسٹ چرچ کے دہشت گردانہ حملے کے متاثرین کے لیے ہی نہیں بلکہ پوری دنیا میں دہشت گردی سے متاثرین کے لیے بھی۔ “

یہ اعزاز اگلے برس کے اوائل میں ہونے والی ایک تقریب میں پیش کیا جائے گا۔

اپنا تبصرہ بھیجیں