نیلم-جہلم ہائیڈرو پاور پروجیکٹ 969 میگاواٹ کا حامل منصوبہ ہے جو سرنگ کے بیٹھ جانے سے ایک سال تک بند رہنے کے بعد جولائی سے دوبارہ بجلی کی فراہمی شروع کر دے گا اور کے-الیکٹرک، نیشنل گرڈ سے 2600 میگاواٹ کے لیے وفاقی حکومت کے ساتھ 10 سال کا معاہدہ کر رہا ہے۔
نیشنل الیکٹرک پاور ریگولیٹری اتھارٹی (نیپرا) نے جمعرات کو کے-الیکٹرک کے صارفین کے لیے بجلی کی قیمت میں اضافے اور سابق واپڈا ڈسٹری بیوشن کمپنیز (ڈسکوز) کی درخواست پر الگ الگ سماعت کی اور اس دوران یہ پیش رفت سامنے آئی تاہم سماعت کا فیصلہ نہیں ہوا۔
نیپرا کے چیئرمین توصیف ایچ فاروقی نے بجلی کی مہنگی پیداوار پر بات کرتے ہوئے کہا کہ نیلم-جہلم ہائیڈرو پاور پروجیکٹ کا جولائی سے پیداوار شروع کرنے کا امکان ہے، جو تقریباً ایک سال قبل سرنگ بیٹھ جانے کی وجہ سے اچانک بند ہو گیا تھا۔
سینٹرل پاور پرچیزنگ ایجنسی (سی پی پی اے) کے نمائندوں نے سماعت کے دوران بتایا کہ بجلی کی پیداواری لاگت ہائیڈرو پاور سے کم پیداوار کی وجہ سے متعلقہ لاگت سے زیادہ ہے کیونکہ 969 میگاواٹ کا منصوبہ بدستور بند ہے۔
کے-الیکٹرک کے نمائندے نے بھی کہا کہ وہ نیشنل گرڈ سے 2600 میگاواٹ کے لیے معاہدے کر رہے ہیں، اس میں ایک ہزار میگاواٹ فرم کی بنیاد پر ہوگا اور بقیہ 1600 میگاواٹ دستیابی کی بنیاد پر ہوگا۔
انہوں نے کہا کہ اس وقت کے-الیکٹرک 1100 میگاواٹ نیشنل گرڈ سے حاصل کر رہا ہے لیکن تقریباً نصف دہائی سے زائد عرصے سے یہ کسی قانونی حیثیت کے بغیر ہے۔
نیپرا کے ارکان نے کہا کہ لاگت میں مخصوص اضافے کی وجہ بھی ترسیلی نظام میں رکاوٹیں ہیں اور نتیجے کے طور پر کہا گیا کہ ڈسکوز کے لیے ایف سی اے میں اضافہ صفر ہوگا اور کے-الیکٹرک کے لیے 56 پیسے سے 1.07 روپے فی یونٹ کے درمیان ایف سی اے اضافہ ہوگا۔
نیپرا نے کہا کہ ڈسکوز کا ایف سی اے بڑھایا جاسکتا ہے لیکن حتمی فیصلہ اگلے ہفتے مخصوص ثبوت اور ترسیلی رکاوٹوں کی تصدیق کے بعد نوٹیفائی کیا جائے گا۔
سماعت کے دوران بتایا گیا کہ ڈسکوز اور کے-الیکٹرک نے مطالبہ کیا تھا کہ صارفین سے فروری میں استعمال ہونے والی بجلی کی مد میں اپریل میں اضافی ایندھن کی لاگت بالترتیب 86 پیسے اور 1.66 روپے فی یونٹ کے حساب سے 8.56 ارب وصول کرنے کی اجازت دی جائے۔