اسرائیلی وزیر اعظم بنیامین نیتن یاہو نے ایرانی اہداف کے ایک مجموعے کو نشانہ بنانے کی منظوری دے دی ہے۔ یہ بات ایک اسرائیلی ذمے دار نے بدھ کے روز کے نیوز ورلڈ کو دیے گئے بیان میں بتائی۔ تاہم ذمے دار نے متعین کردہ اہداف کے حوالے سے تفصیلات نہیں بتائیں اور نہ اس حوالے سے کوئی تبصرہ کیا کہ آیا یہ اہداف خالص ایرانی فوجی اہداف ہیں۔
ادھر امریکی ذمے داران نے غالب گمان ظاہر کیا ہے کہ ایران کے میزائل حملے کے جواب میں اسرائیلی کارروائی جس کی تیاریاں مکمل ہیں، آئندہ تین ہفتوں کے دوران میں کی جا سکتی ہے۔
کے نیوز ورلڈ کے مطابق مذکورہ ذمے داران نے توقع ظاہر کی ہے کہ اسرائیل کا رد عمل پانچ نومبر کو امریکی صدارتی انتخابات سے پہلے سامنے آئے گا۔
اس سے قبل امریکی حکومت کے دو ذمے داران نے باور کرایا تھا کہ صدر جو بائیڈن کی انتظامیہ یہ سمجھتی ہے کہ اسے اسرائیل کی جانب سے یہ اطمینان ہو گیا ہے کہ وہ ایران کی جوہری یا تیل کی تنصیبات پر حملہ نہیں کرے گا۔
مذکورہ ذمے داران نے یہ عندیہ بھی دیا کہ واشنگٹن کے خیال میں فضائی دفاعی میزائل نظام (تھاڈ) اور اس کو چلانے کے لیے 100 کے قریب امریکی فوجیوں کے تل ابیب بھیجے جانے سے اسرائیل کے بعض اندیشے ختم ہو گئےکے نتیجے میں ایران کے بعض اندیشے ختم ہو گئے۔ ان اندیشوں میں ایران کی جانب سے ممکنہ انتقامی کارروائی اور عمومی سیکورٹی امور شامل ہیں۔
ادھر اسرائیلی وزیر دفاع یوآو گیلنٹ نے منگل کے روز ایک بار پھر اس موقف پر زور دیا ہے کہ ان کے ملک کا رد عمل “نشانے پر اور درد ناک” ہو گا۔ ساتھ ہی ان کا کہنا تھا کہ نئے محاذ کھولنا اور مزید جنگیں چھیڑنا تل ابیب کے مفاد میں نہیں ہے۔
اسی طرح کئی اسرائیلی ذمے داران اس بات پر زور دے چکے ہیں کہ جوابی کارروائی بھرپور اور حیران کن ہو گی۔
بعض اسرائیلی ذرائع نے عندیہ دیا ہے کہ واشنگٹن کی مخالفت کے باجود اسرائیل کی جانب سے ایران میں تیل اور بجلی کی تنصیبات کے علاوہ جوہری تنصیبات کو نشانہ بنائے جانے کا امکان ہے۔
اس کے مقابل تہران دھمکی دے چکا ہے کہ آئندہ کسی بھی اسرائیلی حملے کا جواب یکم اکتوبر سے زیادہ بھرپور ہو گا