میرے بیٹے بہت پریشان تھے’: عمران خان کا حملے کے بعد خاندان کو پہنچنے والے صدمے سے متعلق انکشاف

عمران خان پر ہونے والے قاتلانہ حملے نے جہاں پوری قوم اور دنیا بھر میں تشویش کی لہر دوڑائی وہیں حملے کے بعد ان کے اہل خانہ بھی سخت صدمے کی کیفیت سے گزرے جس کا ذکر کرتے ہوئے اپنے حالیہ انٹرویو میں کرکٹر سے سیاست دان بننے والے سابق وزیراعظم نے کہا کہ ان کا خاندان خصوصاً برطانیہ میں مقیم ان کے بیٹے بہت پریشان تھے۔

برطانوی ٹیلی ویژن کے اینکر پیئرز مورگن کے ساتھ ایک تفصیلی انٹرویو کے دوران عمران خان نے قاتلانہ حملے میں مبینہ طور پر ملوث عناصر، اس حملے کے نتیجے میں ان کی اور ان کے خاندان کی جانب سے ادا کی جانے والی بھاری قیمت، پاکستان کے امریکا کے ساتھ تعلقات کے ساتھ ساتھ رشی سوناک کے برطانوی وزیر اعظم بننے کے بارے میں اپنے خیالات کا کھل کر اظہار کیا۔

’میرے بیٹے بہت پریشان تھے‘

اپنے انٹرویو کے دوران عمران خان نے حملے کے بعد پہنچنے والے اس صدمے کے بارے میں بات کی جس سے ان کے بیٹے، ان کی سابقہ اہلیہ جمائما گولڈ اسمتھ گزریں۔

انہوں نے بتایا کہ 2 گھنٹے بعدجیسے ہی میں ہسپتال پہنچا، میں نے اپنے بیٹوں سے بات کی اور اپنی سابقہ بیوی سے بھی گفتگو کی جو کافی پر سکون تھی لیکن میرے بیٹے کافی پریشان تھے اور مجھے امید ہے کہ جلد ہی ان سے ملاقات ہوگی۔

عمران خان نے انکشاف کیا کہ ان کے بڑے صاحبزادے (سلیمان) نے ہمیشہ سیاست میں آنے کے ان کے فیصلے کی مخالفت کی، انہوں نے کہا کہ جب مجھے گولی ماری گئی تو وہ کافی پریشان تھا۔

سابق وزیر اعظم نے اپنی جان کو لاحق خطرات کو مسترد رد کرتے ہوئے کہا کہ ہمارا اپنی زندگی پر کوئی قابو نہیں، یہ سب اللہ کے ہاتھ میں ہے۔

‘وہ مجھے دوبارہ نشانہ بنائیں گے’

عمران خان نے کہا کہ ان پر حملہ اصل میں انہیں اشرافیہ کو بے نقاب کرنے سے روکنے کے لیے ہمیشہ کے لیے خاموش کرنے کی کوشش تھی۔

انہوں نے کہا کہ یہ طاقتور لوگ مجھے دوبارہ نشانہ بنانے کی کوشش کریں گے، کیونکہ انہیں خوف ہے کہ میری پارٹی آئندہ انتخابات میں کلین سوئپ کرے گی۔

وہ دوبارہ کوشش کریں گے، اس لیے میں نے اپنی رہائش گاہ پر سیکیورٹی بڑھا دی ہے۔

چیئرمین پی ٹی آئی نے اصرار کیا کہ قانون کی حکمرانی ہی وہ چیز ہے جو مہذب معاشرے اور بنانا ری پبلک میں فرق کرتی ہے، جو چیز ہمیں ترقی کرنے سے روک رہی ہےوہ یہ ہے کہ پاکستان میں انصاف نہیں ہے۔

عمران خان نے ایک بار پھر افسوس کا اظہار کیا کہ وہ حملے کے بعد تین لوگوں کے خلاف مقدمہ درج نہیں کروا سکے جب کہ ہماری شکایت میں نامزد افراد میں سے ایک انٹیلی جنس افسر تھا۔

اپنا تبصرہ بھیجیں