موسمیاتی تبدیلی پر کام کرنے والے ادارے اسٹیٹ آف دی گلوبل کلائمیٹ کی رپورٹ کے مطابق موسمیاتی تبدیلی کے چار اہم عناصر گرین ہاؤس گیسوں کے ارتکاز، سطح سمندر میں اضافہ، سمندر کی گرمی اور سمندری تیزابیت نے 2021 میں نئے ریکارڈ قائم کیے ہیں۔
رپورٹ کے مطابق عالمی ادارے کی جاری کردہ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ یہ اس بات کی واضح علامت ہے کہ انسانی سرگرمیاں زمین، سمندر اور فضا میں بڑے پیمانے پر تبدیلیوں کا باعث بن رہی ہیں جس کے پائیدار ترقی اور ماحولیاتی نظام کے لیے نقصان دہ اور دیرپا اثرات ہیں۔
رپورٹ میں بتایا گیا کہ موسم کی شدت، موسمیاتی تبدیلی کی روز بروزبدلتی صورتحال نے سیکڑوں ارب ڈالرز کے معاشی نقصانات کو جنم دیا ہے اور انسانی جانوں اور فلاح و بہبود کو بہت زیادہ نقصان پہنچایا ساتھ ہی خوراک، پانی کی حفاظت اور نقل مکانی کو دھچکا لگایا جس پر 2022 میں زور دیا گیا ہے۔
ڈبلیو ایم او کی رپورٹ میں اس بات کی تصدیق کی گئی ہے کہ گزشتہ 7 سال ریکارڈ کے لحاظ سے گرم ترین رہے ہیں، ان 7 برسوں میں گزشتہ سال یعنی 2021 سال کے آغاز اور اختتام پر ‘لا نینا’ ایونٹ کی وجہ سے یہ سال گرم ترین تھا۔
اس سال میں ٹھنڈک کا عارضی اثر ہوا لیکن بڑھتے ہوئے درجہ حرارت کا مجموعی رجحان کو تبدیل ہوا۔
سال 2021 میں اوسط عالمی درجہ حرارت صنعتی سے پہلے کی سطح سے تقریباً 1.11 سینٹی گریڈ زیادہ تھا۔
تاہم جب کاربن ڈائی آکسائیڈ کا ارتکاز عالمی سطح پر 413.2 پارٹس پر ملین تک پہنچ گیا یا پھر صنعتی دور سے پہلے کی سطح سے 149 فیصد زیادہ تک پہنچا توگرین ہاؤس گیسز کا ارتکاز 2020 میں ایک نئے عالمی سطح پر جا پہنچا۔
رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ سمندر کی گرمی بہت زیادہ رہی، سمندر کی اوپری 2 ہزار میٹر گہرائی 2021 میں گرم ہوتی رہی اور خدشہ ہے کہ یہ مستقبل میں بھی گرم ہوتی رہے گی، یہ ایک ایسی تبدیلی ہے جو صد سالہ سے ہزار سالہ وقت کے پیمانے پر ناقابل واپسی ہے۔
رپورٹ کے مطابق تمام ڈیٹا سیٹ اس بات پر متفق ہیں کہ سمندر کی گرمی کی شرح گزشتہ دو دہائیوں میں خاص طور پر اہم اضافے کو ظاہر کرتی ہے، گرمی گہری سطحوں تک پہنچ رہی ہے۔
سال 2021 میں زیادہ تر سمندر نے کسی نہ کسی وقت کم از کم ایک مضبوط سمندری ہیٹ ویو کا سامنا کیا۔
بڑھتی خشک سالی نے دنیا کے کئی حصوں کو متاثر کیا ہے جن میں ہارن آف افریقہ، کینیڈا، مغربی امریکا، ایران، افغانستان، پاکستان اور ترکی شامل ہیں۔
ذیلی جنوبی امریکا میں خشک سالی نے بڑے زرعی نقصانات کو جنم دیا ہے اور توانائی کی پیداوار اور دریا کی نقل و حمل میں خلل ڈالا ہے، پاکستان میں تیسرا سب سے خشک عرصہ فروری میں اور پانچواں عرصہ جنوری تا مارچ دیکھا گیا۔