امریکی کانگریس کی خاتون رکن الہان عبداللہ عمر نے تسلیم کیا ہے کہ مسئلہ کشمیر پر امریکا کے طاقت کے ایوانوں میں اس سطح پر بات نہیں کی جا رہی ہے جہاں ہونی چاہیے، لیکن امید ہے کہ صورتحال تبدیل ہو گی۔
آزاد جموں و کشمیر کے ایوان صدر میں مقامی میڈیا کے ساتھ بات چیت کرتے ہوئے مسئلہ کشمیر سے متعلق سوال کے جواب میں الہان عبداللہ عمر نے کہا کہ ‘ہم نے انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کی رپورٹوں کو دیکھنے کے لیے خارجہ امور کی کمیٹی کی سماعت منعقد کی، سماعت کا مقصد نریندر مودی انتظامیہ کے مسلم دشمن بیانیے سے متعلق بات کرنا اور غور کرنا تھا کہ وہ بیانیہ کیسے انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کی جانب لے جا رہا ہے۔’
اس موقع پر آزاد جموں و کشمیر کے صدر بیرسٹر سلطان محمود بھی موجود تھے۔
اس کے ساتھ ہی انہوں نے مزید کہا ‘میں نہیں سمجھتی کہ کشمیر کے بارے میں کانگریس اور امریکی انتظامیہ میں اتنی بات کی جا رہی ہے جتنی حد تک بات کرنے کی ضرورت ہے۔’
انہوں نے امید کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ان کے دورے سے مسئلہ کشمیر پر مزید بات چیت کی راہ ہموار ہوگی۔
انہوں نے مزید کہا کہ انسانی حقوق کے لیے جد وجہد کرنے والے لوگوں کی مذمت، تحفظات اور مسئلہ کشمیر کے سوال کو بھی خارجہ امور کی کمیٹی کی اس سماعت میں شامل کیا جائے گا۔
صحافیوں نے امریکی نمائندہ الہان عبداللہ عمر سے اقلیتوں کے خلاف قانون سازی اور بھارت میں مذہبی اقلیتوں خصوصاً مسلمانوں پر ریاستی سرپرستی میں ہونے والے حملوں کے ساتھ ساتھ مقبوضہ جموں و کشمیر میں خاص طور پر اگست 2019 میں اس کی خصوصی حیثیت ختم کرنے کے بعد سے انسانی حقوق کی بگڑتی ہوئی صورتحال سے متعلق سوالات پوچھے تھے ۔
ایک صحافی نے امریکی رکن کانگریس سے پوچھا تھا کہ کیا پاکستان میں حکومت کی تبدیلی کا الزام امریکا کو ٹھہرانے والے پی ٹی آئی کے سربراہ عمران خان نے ان سے ملاقات کے دوران اس معاملے کی شکایت کی تھی اور اگر عمران خان نے شکایت کی تھی تو آپ نے اس کا کیا جواب تھا؟
الہان عبداللہ عمر نے صحافیوں کا شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا کہ وہ اپنے دورے کے اختتام پر ایک رسمی پریس کانفرنس سے خطاب کریں گی اور شاید کچھ ان سوالات کا جواب دیں گی جو آپ سب نے یہاں پوچھے ہیں۔’
اس سے قبل صدر آزاد کشمیر سلطان محمود کے ساتھ اپنی ملاقات کے دوران ان کا کہنا تھا کہ انہوں نے بھارت اور کشمیر میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پر شدید تشویش کا اظہار کیا ہے اور وہ اس معاملے کو دوبارہ امریکی کانگریس کے ساتھ ساتھ بائیڈن انتظامیہ کے ساتھ بھی اٹھائیں گی۔
صدر آزاد کشمیر کے دفتر کی جانب سے جاری ایک پریس ریلیز کے مطابق انہوں نے آزاد جموں و کشمیر کے صدر کو بتایا کہ ‘ ہمیں بھارت کے 5 اگست 2019 کے اقدام سے سخت تشویش ہے۔’
انہوں نے کہا کہ ‘میرے لیے انسانی حقوق میرے کام کی ترجیح رہے ہیں اور اگر آپ دوسروں کے ساتھ شراکت داری نہیں کر رہے ہیں تو آپ ان کے حقوق کے لیے جد وجہد نہیں کر سکتے۔’
اس موقع پر سلطان محمود نے کہا کہ ‘ہندوستان کی روایتی ہٹ دھرمی دیرینہ مسئلہ کشمیر کے حل کی راہ میں رکاوٹ ہے جو اب خطرناک حد تک بڑھ چکا ہے۔’
صدر آزاد کشمیر کا کہنا تھا کہ ‘بھارت کی ہٹ دھرمی کی وجہ سے 1947 سے لے کر اب تک اس معاملے پر کوئی پیش رفت نہیں ہوئی، تنازع کشمیر کو پرامن طریقے سے حل کرنے کے بجائے بھارت نے متنازع علاقے میں 9 لاکھ سے زائد فوجی تعینات کر رکھے ہیں، جو کشمیریوں کی منظم نسل کشی میں مصروف ہیں۔’
آزاد جموں و کشمیر کے صدر نے الہان عبداللہ عمر کی توجہ مقبوضہ کشمیر میں ڈیموگرافک انجینئرنگ کی جانب بھی مبذول کرائی اور کہا کہ بھارت نے مقبوضہ کشمیر میں آبادی کا تناسب تبدیل کرنے کے لیے 42 لاکھ بھارتی ہندوؤں کو کشمیر کے جعلی ڈومیسائل جاری کیے ہیں۔
انہوں نے مزید کہا کہ موجودہ حالات میں عالمی برادری بالخصوص امریکا کو آگے آنے اور دو ایٹمی طاقتوں کے درمیان اس دیرینہ تنازع کو حل کرنے میں مدد کرنے کی اشد ضرورت ہے۔”
انہوں نے الہان عبداللہ عمر کا انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پر سخت مؤقف اختیار کرنے اور بات چیت کی اہمیت کو اجاگر کرنے پر شکریہ ادا کیا۔
انہوں نے کہا کہ آپ نے جس انداز میں بھارت کی جانب سے مقبوضہ کشمیر میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کی مذمت کی ہے وہ ہمارے لیے تقویت کا باعث ہے۔
سرکاری ذرائع کے مطابق الہان عبد اللہ عمر کو چکوٹھی سیکٹر میں لائن آف کنٹرول (ایل او سی) کا بھی دورہ کرایا گیا جہاں انہیں 2003 کے جنگ بندی معاہدے کا احترام کرنے کے لیے پاکستانی اور ہندوستانی افواج کے درمیان تازہ مفاہمت سے پہلے اور بعد کی صورت حال سے آگاہ کیا گیا۔
اس دورے کے موقع پر جنگ بندی سے قبل بھارتی گولہ باری سے متاثر ہونے والے رہائشی بھی وہاں جمع ہوئے اور اپنی وحشت کی داستانیں مہمانوں کو بتائیں۔
ایل او سی کے ساتھ موجود تین فعال کراسنگ پوائنٹس میں سے ایک چکوٹھی سیکٹر میں واقع ہے جسے 2005 میں کشمیر مخصوص اعتماد سازی کے اقدام (سی بی ایم) کے طور پر کھولا گیا تھا، تین سال بعد کشمیر کے منقسم حصوں کے درمیان لوگوں سے لوگوں کے رابطے بڑھانے کے لیے بارٹر تجارت بھی ایک اور سی بی ایم کے طور پر شروع کی گئی تھی۔
تاہم، بھارت نے یکطرفہ طور پر اپریل 2019 میں سفر اور تجارت دونوں کو بند کر دیا تھا جبکہ صرف چار ماہ بعد اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قراردادوں کی صریح خلاف ورزی کرتے ہوئے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کو بھی ختم کر دیا تھا۔
دورے پر بھارت کا ردعمل
یہ پہلی مرتبہ نہیں ہے کہ امریکی صدر جو بائیڈن کی ڈیموکریٹک پارٹی سے تعلق رکھنے والی صومالیہ نژاد امریکی الہان عبداللہ عمر نے ہندوستان کے انسانی حقوق کے خراب ریکارڈ کی جانب توجہ مبذول کروائی ہے۔
اپریل کے اوائل میں بھی انہوں نے انسانی حقوق پر بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی کی حکومت پر تنقید کرنے میں امریکی حکومت کی مبینہ ہچکچاہٹ پر سوال اٹھایا تھا۔
ان کی جانب سے سوالات اٹھانے جانے کے کچھ روز بعد امریکی وزیر خارجہ انٹونی بلنکن نے کہا تھا کہ واشنگٹن بھارت میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں میں کچھ حکومتی، پولیس اور جیل حکام کی جانب سے ہونے والے اضافے کی نگرانی کر رہا ہے۔
امریکی نمائندے الہان عبداللہ عمر کے آزاد جموں و کشمیر کے دورے کے دوران ہی ہندوستان نے ان کے دورے کی مذمت کرتے ہوئے سخت الفاظ میں رد عمل دیا۔
بھارتی میڈیا رپورٹس کے مطابق ہندوستان کی وزارت خارجہ کے ترجمان کا کہنا تھا کہ ‘میں صرف یہ کہوں کہ اگر ایسا کوئی سیاست دان اندرون ملک اپنی تنگ نظر سیاست پر عمل کرنا چاہتا ہے، تو یہ اس کی مرضی ہے۔’
بھارتی ترجمان نے مزید کہاکہ ‘لیکن ہماری علاقائی سالمیت اور خودمختاری کی خلاف ورزی کرنا اس معاملے کو ہم سے جوڑ دیتا ہے اور ہم سمجھتے ہیں کہ یہ دورہ قابل مذمت ہے۔’