اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس اطہر من اللہ نے مسلم لیگ (ن) کی نائب صدر مریم نواز اور سینئر رہنما شاہد خاقان عباسی کے خلاف عدلیہ کو متنازع بنانے سے متعلق دائر درخواست پر محفوظ شدہ فیصلہ سناتے ہوئے پٹیشن ناقابل سماعت قرار دے دی۔
عدالت نے مریم نواز اور شاہد خاقان عباسی کے خلاف توہین عدالت کی درخواست قابل یا ناقابل سماعت ہونے پر فیصلہ محفوظ کرلیا تھا۔
عدالت عظمیٰ نے عدلیہ کو متنازع بنانے سے متعلق دائر درخواست ناقابل سماعت قرار دیتے ہوئے 5 صفحات پر مشتمل فیصلہ تحریر کیا۔
چیف جسٹس اطہر من اللہ نے درخواست گزار خاتون وکیل کے دلائل سننے کے بعد فیصلہ محفوظ کرلیا تھا، درخواست میں مؤقف اختیار کیا گیا تھا کہ سابق چیف جسٹس ثاقب نثار کے خلاف جو باتیں پریس کانفرنس میں ہوئیں وہ توہین عدالت ہے۔
چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ اطہر من اللہ نے ریمارکس دیے کہ جو خود متاثرہ ہے وہ بھی ہتک عزت کا دعویٰ کر سکتا ہے۔
درخواست گزار کی وکیل نے کہا کہ سینئر صحافی انصار عباسی والا شوکاز نوٹس کیس بھی آپ کے پاس زیر سماعت ہے۔
جس پر چیف جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیے کہ وہ الگ کیس ہے اس کے ساتھ نہ ملائیں، پہلی بات یہ ہے کہ تنقید سے متعلق ججز اوپن مائنڈ ہوتے ہیں۔
انہوں نے ریمارکس دیے کہ سابق چیف جسٹس ہی کیوں نہ ہو، توہین عدالت نہیں ہوتی۔
چیف جسٹس اطہر من اللہ نےریمارکس دیے کہ ججز بڑی اونچی پوزیشن پر ہوتے ہیں، تنقید کو ویلکم کرنا چاہیے۔
بعدازاں عدالت نے مریم نواز اور شاہد خاقان عباسی کے خلاف توہین عدالت کی درخواست پر سماعت مکمل ہونے پر فیصلہ محفوظ کرلیا تھا۔
خیال رہے کہ گلگت بلتستان کے سابق چیف جج رانا شمیم نے سابق چیف جسٹس میاں ثاقب نثار پر الزام لگایا تھا کہ انہوں نے سابق وزیر اعظم نواز شریف اور ان کی صاحبزادی مریم نواز کو 2018 کے عام انتخابات سے قبل ضمانت نہ دینے کی ہدایت کی تھی۔
سابق چیف جسٹس ثاقب نثار نے رانا شمیم کی جانب سے لگائے گئے الزامات کو مسترد کرتے ہوئے اسے من گھڑت قرار دے دیا تھا۔
بعد ازاں مسلم لیگ (ن) کے رہنماؤں نے ثاقب نثار پر کڑی تنقید کی تھی۔
مسلم لیگ (ن) کی نائب صدر مریم نواز نے کہا تھا کہ سابق چیف جسٹس ثاقب نثار بتائیں کس نے آپ کو مریم اور نواز شریف کو سزا دینے پر مجبور کیا جبکہ منظر عام پر آنے والی آڈیو کے ساتھ پروپیگنڈا شروع ہوگیا ہے۔