مجھ سمیت دیگر افراد کی تنخواہوں پر کٹ لگا کر انتخابات جیسا اہم ٹاسک پورا کیا جاسکتا ہے، چیف جسٹس

پنجاب اور خیبرپختونخوا میں انتخابات ملتوی کرنے کے خلاف سپریم کورٹ میں پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کی درخواست پر سماعت کے دوران چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیے کہ ’انتحابات کرانے کے لیے مجھ سمیت دیگر افراد کی تنخواہوں پر کٹ لگا دیا جائے تو انتخابات جیسا اہم ٹاسک پورا کیا جاسکتا ہے‘۔

پاکستان تحریک انصاف کی درخواست پر چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں سپریم کورٹ کا پانچ رکنی بینچ سماعت کررہا ہے۔

پانچ رکنی بینچ چیف جسٹس عمر عطا بندیال کے علاوہ جسٹس اعجازالاحسن، جسٹس منیب اختر، جسٹس امین الدین خان اور جسٹس جمال خان مندوخیل پر مشتمل ہے۔

آج کی سماعت

سماعت کے آغاز پر چیف جسٹس نے نئے اٹارنی جنرل منصور عثمان کا خیرمقدم کرتے ہوئے کہا کہ ’توقع ہے آپ سے بہترین معاونت ملے گی‘۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ ’کارروائی کو لمبا نہیں کرنا چاہتے، سادہ سا سوال ہے کہ الیکشن کمیشن تاریخ آگے کر سکتا ہے یا نہیں، اگر الیکشن کمیشن کا اختیار ہوا تو بات ختم ہوجائے گی‘۔

چیف جسٹس نے مزید کہا کہ ’سیاسی جماعتوں کو فریق بنانے کے لیے ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے نکتہ اٹھایا تھا، جمہوریت کے لیے قانون کی حکمرانی لازمی ہے، قانون کی حکمرانی کے بغیر جمہوریت نہیں چل سکتی، سیاسی درجہ حرارت اتنا زیادہ ہوگا تو مسائل بڑھیں گے‘۔

اس دوران پیپلزپارٹی کی جانب سے وکیل فاروق ایچ نائیک نے کہا کہ ’ملک میں اس وقت انارکی اور فاشزم ہے‘۔

اٹارنی جنرل نے کہا کہ ’سپریم کورٹ کے دو ججز نے پہلے فیصلہ دیا‘، اس پر چیف جسٹس نے کہا کہ ’اس وقت سوال فیصلے کا نہیں الیکشن کمیشن کے اختیار کا ہے‘۔

اٹارنی جنرل نے کہا کہ ’عدالتی فیصلہ اگر چار تین کا ہوا تو کسی حکم کا وجود ہی نہیں جس کی خلاف ورزی ہوئی، عدالتی حکم نہیں تھا تو صدر مملکت تاریخ بھی نہیں دے سکتے تھے، یکم مارچ کے عدالتی حکم کو پہلے طے کر لیا جائے، موجودہ کیس میں استدعا ہی فیصلے پر عملدرآمد کی ہے‘۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ ’بینچ کے ارکان درخواست میں اٹھائے گئے سوال کا جائزہ لینے بیٹھے ہیں، آپ کا انحصار تکنیکی نکتے پر ہے، سپریم کورٹ کا دائرہ اختیار درخواست تک محدود نہیں ہوتا، اس وقت مقدمہ تاریخ دینے کا نہیں منسوخ کرنے کا ہے، جمہوریت کے لیے انتخابات ضروری ہیں‘۔

چیف جسٹس نے اٹارنی جنرل سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ ’تکنیکی بنیادوں پر معاملہ خراب نہ کریں، سپریم کورٹ کے یکم مارچ کے فیصلے پر عملدرآمد ہوچکا ہے، اس معاملے کو دوبارہ اٹھا کر عدالت میں پیش نہ کیا جائے‘۔

جسٹس جمال خان مندوخیل نے ریمارکس دیے کہ ’یکم مارچ کا سپریم کورٹ کا فیصلہ کتنے ارکان کا ہے یہ سپریم کورٹ کا اندرونی معاملہ ہے، عدالتی فیصلہ کتنے ارکان کا ہے یہ ہمارا اندرونی معاملہ ہے، یہ بتائیں کہ کیا 90 روز میں انتخابات کرانا آئینی تقاضا نہیں ہے؟ کیا الیکشن کمیشن انتخابات کی تاریخ منسوخ کر سکتا ہے؟‘۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ ’معاملہ کلیئر کرنے پر جسٹس جمال مندوخیل کا مشکور ہوں، لوگ آٹے کیلئے لائنوں میں لگے ہوئے ہیں، تحریک انصاف اور حکومت کی ذمہ داری ہے کہ ملکی حالات کو بہتر کیا جائے، تمام قومی اداروں کا احترام لازمی ہے‘۔

پی ٹی آئی کی جانب سے وکیل علی ظفر نے کہا کہ ’ہر ادارے کو اپنی آئینی حدود میں کام کرنا ہے‘، اس پر چیف جسٹس نے کہا کہ ’آپ کی اعلی قیادت سے بھی ایسے رویے کی توقع ہے، پی ٹی آئی کو پہل کرنی ہوگی کیونکہ عدالت سے رجوع انہوں نے کیا ہے، ملک میں اس وقت تشدد اور عدم برداشت ہے، معاشی حالات دیکھیں آٹے کے لیے لائنیں لگی ہوئی ہیں، آپس میں دست و گریبان ہونے کے بجائے ان لوگوں کا سوچیں‘۔

علی ظفر نے کہا کہ ’انتخابات تاخیر کا شکار ہوئے تو بحران مزید بڑھے گا‘۔

جسٹس امین الدین خان نے استفسار کیا کہ ’کیا الیکشن شیڈول 90 دن سے کم کیا جاسکتا ہے‘۔

جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیے کہ ’الیکشن کمیشن کے پاس 90 دن کا اندر شیڈول ایڈ جسٹ کرنے کا اختیار ہے، الیکشن کمیشن بظاہر 90 دن سے تاخیر نہیں کرسکتا‘۔

جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ ’اب 90 دن بھی گزر گئے ہیں، آئین کی ہمارے ملک میں کوئی پرواہ نہیں کرتا، الیکشن تو ہر صورت ہونے ہیں لیکن سوال یہ ہے کہ اب 90 دن سے زیادہ تاریح کون بڑھائے گا؟ سوال یہ بھی ہے کہ کیا ایک بندے کی خواہش پر اسمبلی تحلیل ہونی چاہیے‘۔

پی ٹی آئی وکیل علی ظفر نے کہا کہ ’وزیراعظم اور ویزاعلی منتحب نمائندے ہوتے ہیں‘۔

جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ ’اگر وزیراعظم کی اپنی جماعت عدم اعتماد لانا چاہے تو اسمبلی ٹوٹ سکتی ہے‘، اس پر علی ظفر نے کہا کہ ’تحریک عدم اعتماد آجائے تو اسمبلی تحلیل نہیں ہو سکتی‘۔

جسٹس جمال مندوخیل نے استفسار کیا کہ ’کیا پارلیمنٹ کو اس معاملے کو نہیں دیکھنا چاہیے؟‘، اس پر علی ظفر نے کہا کہ ’وزیر اعظم اور وزیراعلیٰ کے اختیار پر پارلیمنٹ بحث کرسکتی ہے‘۔

جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ ’عدالتی فیصلہ پر عمل ہو چکا ہے، صدر مملکت کی تاریخ پر الیکشن۔کمیشن نے شیڈول جاری کیا، سوال یہ ہے کیا الیکشن کمیشن کا اختیار ہے کہ صدر مملکت کی تاریخ کو تبدیل کر دے، کیا الیکشن کمیشن 90 دن سے زیادہ کی تاخیر کر سکتا ہے، سوال یہ ہے کہ کیا الیکشن کمیشن ایسا کر سکتا ہے؟‘۔

پی ٹی آئی کی جانب سے وکیل علی ظفر نے کہا کہ ’الیکشن کمیشن نے پنجاب کی حد تک عدالتی فیصلہ پر عمل کیا‘۔

چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے استفسار کیا کہ ’کیا الیکشن کمیشن کے پاس تاریخ کے تعین کا اختیار ہے، کیا الیکشن کمیشن صدر کی تاریخ کو تبدیل کر سکتا ہے‘۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ ’الیکشن ایکٹ کا سیکشن 58 انتحابات منسوح کرنے کی اجازت نہیں دیتا، 2008 میں انتحابات تاخیر کا شکار ہوئے تھے‘۔

پی ی آئی وکیل بیرسٹر علی ظفر نے کہا کہ ’الیکشن کمیشن آئین کے 2 آرٹیکلز کا سہارا لیا ہے‘۔

جسٹس جمال مندوخیل نے ریمارکس دیے کہ ’الیکشن کمیشن نے وجوہات بتا کر کہا کہ آئینی ذمہ داری ادا کرنے سے قاصر ہیں، اگر الیکشن کمیشن اٹھ اکتوبر کی تاریخ نہ دیتا تو کیا ہوتا؟‘۔

جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ ’الیکشن کمیشن تاریح تبدیل کرنے کے لیے صدر سے رجوع کرسکتا تھا، تمام انتظامی ادارے الیکشن کمیشن سے تعاون کے پابند ہیں، وجوہات ٹھوس ہوں تو ہی کمیشن رجوع کرسکتا ہے‘۔

بیرسٹر علی ظفر نے کہا کہ ’آرٹیکل220 تمام حکومتوں اور اداروں کو کمیشن سے تعاون کا پابند کرتا ہے، الیکشن کمیشن نے صرف اداروں سے موقف لے کر فیصلہ لکھ دیا، عدالت کمیشن سے پوچھے کہ آئینی اختیار استعمال کیوں نہیں کیا، انتظامی ادارے تعاون نہ کریں تو ارٹیکل 5 کا اطلاق ہو گا، ہر ادارہ آئین اور شیخص قانون پر عمل کرنے کا پابند ہے، الیکشن کمیشن کے مطابق آرٹیکل 254 الیکشن منسوخ کرنے کا اختیار دیتا ہے‘۔

جسٹس جمال مندوخیل نے ریمارکس دیے کہ ’الیکشن کی تاریخ پہلے ہی 90 دن کے بعد کی تھی، کیا 90 دن بعد کی تاریخ درست تھی؟‘۔

اس پر بیرسٹر علی ظفر نے کہا کہ ’اب بھی عدالت حکم دے تو 90 دن میں الیکشن نہیں ہو سکتا‘۔

جسٹس جمال مندوخیل نے ریمارکس دیے کہ ’صدر نے بھی الیکشن کی تاریخ 90 روز کے بعد کی دی، آرٹیکل 254 کا سہارا کام ہونے کے بعد لیا جا سکتا ہے پہلے نہیں‘۔

جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ ’عملی طور پر الیکشن 90 دن میں ممکن نہ ہوں تو عدالت حکم دے سکتی ہے‘۔

جسٹس منیب اختر نے ریمارکس دیے کہ ’اگر انتخابات ممکن نہیں تھے تو الیکشن کمیشن کو عدالت سے رجوع کرنا چاہیے تھا، ایک اسمبلی کے شیڈول کے دوران دوسری اسمبلی تحلیل ہو جائے تو ایک ہی دن انتخابات کے لیے رجوع کیا جا سکتا ہے، الیکشن کمیشن ازخود ایسا حکم جاری نہیں کر سکتا، الیکشن کمیشن چھ ماہ الیکشن آگے کر سکتا ہے تو دو سال بھی کر سکے گا‘۔

جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ ’انتخابات آگے کون لے جا سکتا ہے یہاں آئین خاموش ہے،کیا پارلیمنٹ کو آئین میں ترمیم نہیں کرنی چاہیے‘۔

جسٹس منیب اختر نے ریمارکس دیے کہ ’پارلیمنٹ ترمیم کر لے تو یہ سب سے اچھا ہو گا، سوال یہ ہے کہ ترمیم ہونے تک جو انتخابات ہونے ہیں ان کا کیا ہو گا‘۔

بیرسٹر علی ظفر نے کہا کہ ’جس بنیاد پر الیکشن ملتوی ہوئے اس طرح تو کبھی الیکشن نہیں ہو سکتے‘۔

جسٹس منیب اختر نے ریمارکس دیے کہ ’اگر فنڈز کا معاملہ ہے تو نگران حکومت فنڈز کیسے دے گی‘۔

جسٹس اعجاز الاحسن نے استفسار کیا کہ ’جو مسائل آج ہیں وہ 8 اکتوبر کو کیسے نہیں ہوں گے؟‘۔

بیرسٹر علی ظفر نے کہا کہ ’الیکشن کمیشن نے کہا فنڈز فراہم نہیں کیے گئے، الیکشن کمیشن نے کبھی فنڈز دینے کی ہدایت نہیں کی تھی‘۔

جسٹس منیب اختر نے کہا کہ ’اخبار میں وزیر اعظم کا بیان پڑھا تھا، وفاقی حکومت کہتی ہے فروری تک 500 ارب ٹیکس جمع کیا، حیرت ہے کہ 500 ارب میں سے 20 ارب نہیں دیے گئے‘۔

بیرسٹر علی ظفر نے کہا کہ ’الیکشن کمیشن کے حکم نامے کے مطابق سیکریٹری خزانہ نے کہا فنڈز دینا مشکل ہو گا، وزارت خزانہ نے مشکل کہا تھا انکار نہیں کیا تھا‘۔

جسٹس منیب اختر نے ریمارکس دیے کہ ’سیکریٹری خزانہ نے تو کہا الیکشن کے لیے فنڈز نہ ابھی ہیں نہ آگے ہوں گے، اس کا مطلب ہے کہ الیکشن تو ہوں گے ہی نہیں، حکومت کا کوئی سیکریٹری ایسا بیاں کیسے دے سکتا ہے، ٹیکس جمع ہو کر فیڈرل کنسولیڈیٹڈ فنڈز میں جاتا ہے‘۔

چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیے کہ ’انتحابات کرانے کے لیے مجھ سمیت دیگر افراد کی تنخواہوں پر کٹ لگا دیا جائے تو انتخابات جیسا اہم ٹاسک پورا کیا جاسکتا ہے‘۔

پی ٹی آئی کے وکیل فاروق ایچ نائیک نے کہا کہ ’فیڈرل کنسولٹیڈ فنڈز کے اخراجات پارلیمنٹ کی منظوری سے خرچ ہوتے ہیں‘۔

جسٹس منیب اختر نے استفسار کیا کہ ’اگر اسمبلی تحلیل ہوجائے تو کیا فنڈز جاری ہی نہیں ہو سکیں گے؟‘۔

فاروق ایچ نائیک نے کہا کہ ’موجودہ کیس میں قومی اسمبلی موجود ہے، نئی اسمبلی اخراجات کی منظوری دیتی ہے، سیکریٹری خزانہ کے بیان کا جواب الیکشن کمیشن ہی دے گا‘۔

جسٹس جمال مندوخیل نے استفسار کیا کہ ’سیکریٹری خزانہ منظور کردہ بجٹ سے ہٹ کر فنڈز کیسے دے سکتا ہے‘۔

بیرسٹر علی ظفر نے کہا کہ ’یہ تکنیکی نقطہ ہے کے پیسے کہاں سے آنے ہیں؟‘۔

اس پر چیف جسٹس نے انتحابات کے لیے ججز کی تنخواہوں میں کٹوتی کی تجویز دیتے ہوئے کہا کہ ’الیکشن کے لیے پوری بجٹ کی ضرورت ہی نہیں ہے، 20 ارب کا کٹ ہماری تنخواہوں پر بھی لگایا جاسکتا ہے، حکومت اخراجات کم کر کے 20 ارب نکال سکتی ہے‘۔

اپنا تبصرہ بھیجیں